منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

اگر ميں نے فلاں عورت سے شادى كى تو اسے طلاق

98452

تاریخ اشاعت : 27-04-2011

مشاہدات : 4664

سوال

ايك شخص نے كہا: اگر ميں نے فلاں عورت سے شادى كى تو اسے طلاق، كيا شادى كرنے كے بعد خود ہى اسے طلاق ہو جائيگى ؟
ميرے خيال ميں احناف اور مالكى حضرات كا كہنا ہے كہ: اس سے طلاق واقع ہو جائيگى، ليكن شافعى اور حنابلہ حضرات كے ہاں طلاق واقع نہيں ہوتى. كيا آپ مجھے اس سلسلہ ميں راجح رائے كے متعلق بتا سكتے ہيں اور اس ميں جمہور كى رائے كيا ہے ؟
كيا مالكيہ اور احناف كے پاس كوئى ايسى دليل ہے جو ان كى رائے كو تقويت ديتى ہوكہ شادى سے قبل طلاق كے الفاظ بولنے سے شادى كے بعد خود بخود طلاق واقع ہو جائيگى ؟
آخر ميں گزارش ہے كہ آيا اگر بغير كسى عورت كے متعين كيے عبارت بولى جائے تو كيا شريعت ميں اس كے متعلق كوئى اختلاف پايا جاتا ہے، اور اگر مخصوص عورت ہو تو پھر كيا ہو گا؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

فقھاء كا اختلاف ہے كہ اگر كوئى شخص كہے: اگر ميں نے فلاں عورت سے شادى كى ـ كسى معين عورت كا ذكر كرے ـ تو اسے طلاق.

اس ميں شافعى اور حنبلى فقھاء كہتے ہيں كہ اگر اس عورت سے شادى كى تو طلاق واقع نہيں ہوگى، ليكن احناف اور مالكى حضرات كہتے ہيں كہ اسے طلاق ہو جائيگى.

ليكن اگر كوئى شخص يہ كہتا ہے كہ: ہر عورت جس سے ميں شادى كروں اسے طلاق اس ميں عورت كو متعين نہ كرے تو احناف كے ہاں اسے طلاق واقع ہو جائيگى، اس ميں مالكى حضرات ان كى مخالفت كرتے ہيں ان كے ہاں طلاق اس وقت واقع ہوگى جب كسى عورت كى تعيين كى جائيگى، يا پھر وقت يا جگہ كى تعيين كى جائے، مثلا: ہر وہ عورت جس سے ميں دس برس تك شادى كروں اسے طلاق.

شافعى اور حنابلہ كا مسلك راجح ہے جس پر صحيح دليل بھى دلالت كرتى ہے، ترمذى شريف ميں درج ذيل حديث ہے:

عمرو بن شعيب عن ابيہ عن جدہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ابن آدم كى نذر اس چيز ميں نہيں جو اس كى ملكيت ہى نہيں، اور جس كا وہ مالك نہيں اس ميں طلاق بھى نہيں "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 1181 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور سنن ابو داود ميں عمرو بن شعيب عن ابيہ عن جدہ سے مروى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس كے تم مالك ہو اسى ميں طلاق ہے، اور جس كے تم مالك ہو اس ميں آزادى ہے، اور جس كے تم مالك نہيں اس ميں بيع نہيں "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 2190 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور امام بيھقى نے جمہور صحابہ كرام اور تابعين عظام سے بيان كيا ہے كہ وہ ان نصوص سے يہى سمجھے كہ جب كوئى شخص يہ كہے كہ: اگر ميں فلاں عورت سے شادى كروں تو اسے طلاق، اور پھر وہ اس سے شادى كر لے تو طلاق واقع نہيں ہوگى كيونكہ اس نے طلاق كو معلق كيا ہے اور ايسے وقت ميں طلاق كے الفاظ بولے ہيں جب وہ اس كا مالك ہى نہيں. حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے فتح البارى ميں نقل كيا ہے.

اور ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے دريافت كيا گيا كہ ايك شخص نے كہا: ميں جس عورت سے بھى شادى كروں اسے طلاق اس كاحكم كيا ہے ؟

ان كا جواب تھا:

" كچھ نہيں، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اے ايمان والو جب تم مومن عورتوں سے نكاح كرو پھر انہيں طلاق دو .

اور ابن خزيمہ نے بھى ان سے روايت كيا ہے كہ ان سے ايسے شخص كے متعلق دريافت كيا گيا جو يہ قول كہے:

جب ميں نے فلاں عورت سے شادى كى تو اسے طلاق ؟

انہوں نے فرمايا:

اس ميں كچھ نہيں، بلكہ طلاق تو اس كے ليے ہےجو مالك ہو.

لوگ كہنے لگے كہ: ابن مسعود تو يہ كہتے ہيں: جب وہ وقت مقرر كرے تو جيسے اس نے كہا ( يعنى طلاق واقع ہو جائيگى ) انہوں نے كہا: اللہ ابو عبد الرحمان پر رحم كرے اگر ايسا ہى ہوتا جيسا انہوں نے كہا ہے تو اللہ سبحانہ و تعالى اس طرح فرماتے:

جب تم مومن عورتوں كو طلاق دو اور پھر نكاح كرو .

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جب كوئى شخص كہے: اگر ميں نے فلاں عورت سے شادى كى تو اسے طلاق، اس سے اسے طلاق نہيں ہوگى چاہے وہ اسى عورت سے شادى بھى كر لے "

پھر امام احمد رحمہ اللہ سے يہى بيان كر كے كہتے ہيں:

ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے يہى مروى ہے، اور سعيد بن مسيب اور عطاء اور حسن اور عروہ اور شعبى اور ابوثور كا بھى يہى قول ہے.

اور امام ترمذى نے اسے على اور جابر اور عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہم اور سيعد بن جبير اور على بن حسين اور شريح وغيرہ دوسرے تابعين فقھاء سے روايت كيا ہے، اور اكثر اہل علم كا قول بھى يہى ہے " انتہى

ديكھيں: المغنى ( 9 / 416 ).

امام بخارى رحمہ اللہ نے جمہور كا قول " طلاق واقع نہيں ہوتى " اختيار كيا ہے، اور اسے على اور ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہم اور تابعين كى ايك جماع سے نقل كيا ہے، امام بخارى كہتے ہيں:

" نكاح سے قبل طلاق كے متعلق باب، اور اللہ عزوجل كا فرمان ہے:

اے ايمان والو جب تم مومن عورتوں سے نكاح كرو پھر انہيں چھونے سے قبل طلاق دے دو تو تمہارے ليےان پر كوئى عدت نہيں جسے وہ شمار كريں، انہيں فائدہ دو اور اچھے طريقہ سے چھوڑ دو .

اور ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ اللہ سحبانہ و تعالى نے طلاق كو نكاح كے بعد ركھا ہے، اس سلسلہ ميں على، سعيد بن مسيب، عروہ بن زبير، ابو بكر بن عبد الرحمن ، عبيد اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ، ابان بن عثمان، على بن حسين، شريح، سعيد بن جبير، قاسم، سالم، طاؤس، حسن، عكرمہ عطاء، عامر بن سعد، جابر بن زيد، نافع بن جبير، محمد بن كعب سليمان بن يسار، مجاہد، قاسم بن عبد الرحمن، عمرو بن ھرم، شعبى سے مروى ہے كہ طلاق نہيں ہوگى " انتہى

ديكھيں: فتح القدير ( 4 / 113 ) المنتقى للباجى ( 4 / 117 ) شرح الخرشى على خليل ( 4 / 38 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب