بدھ 24 جمادی ثانیہ 1446 - 25 دسمبر 2024
اردو

خاوند اوربیوی کے حقوق کیا ہيں

سوال

کتاب وسنت کے مطابق بیوی کے اپنے خاوند پر کیا حقوق ہیں ؟
یا دوسروں معنوں میں خاوند کی اپنی بیوی کے بارہ میں کیا ذمہ داریاں ہيں اوراسی طرح بیوی کی اپنے خاوند کے بارہ میں کیا ذمہ داریاں ہیں ؟

الحمد للہ.

دین اسلام نے خاوند پر بیوی کے کچھ حقوق رکھے ہيں ، اور اسی طرح بیوی پربھی اپنے خاوند کے کچھ حقوق مقرر کیے ہيں ، اورکچھ حقوق توخاوند اوربیوی دونوں پر مشترکہ طور پر واجب ہیں ۔

ذیل میں ہم ان شاء اللہ خاوند اوربیوی کے ایک دوسرے پر کتاب و سنت کی روشنی میں حقوق کا ذکر کریں جس کی شرح میں اہل علم کے اقوال کا بھی ذکر کیا جائے گا ۔

اول : صرف بیوی کے خاص حقوق :

بیوی کے اپنے خاوند پر کچھ تومالی حقوق ہیں جن میں مہر ، نفقہ ، اوررہائش شامل ہے ۔

اورکچھ حقوق غیر مالی ہیں جن میں بیویوں کے درمیان تقسیم میں عدل انصاف کرنا ، اچھے اوراحسن انداز میں بود باش اورمعاشرت کرنا ، بیوی کوتکلیف نہ دینا ۔

1 - مالی حقوق :

ا – مھر :

مہر وہ مال ہے جو بیوی کااپنے خاوند پر حق ہے جوعقد یا پھر دخول کی وجہ سے ثابت ہوتا ہے ، اوریہ بیوی کا خاوند پر اللہ تعالی کی طرف سے واجب کردہ حق ہے ، اللہ تعالی کا فرمان ہے :

اورعورتوں کوان کے مہر راضی خوشی دے دو النساء ( 4 ) ۔

اورمہر کی مشروعیت میں اس عقد کے خطرے اورمقام کا اظہار اورعورت کی عزت و تکریم اوراس کے لیے اعزاز ہے ۔

مہر عقد نکاح میں شرط نہیں اورنہ ہی جمہور فقھاء کے ہاں یہ عقد کا رکن ہے ، بلکہ یہ تواس کے آثار میں سے ایک اثر ہے جواس پر مرتب ہوا ہے ، اگر کوئي عقد نکاح بغیر مہر ذکر کیے ہوجائے توباتفاق جمہور علماء کے وہ عقد صحیح ہوگا ۔

اس لیے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

اگر تم عورتوں کوبغیر ہاتھ لگائے اوربغیر مہر مقرر کیے طلاق دے دو توبھی تم پر کوئي گناہ نہیں البقرۃ ( 236 ) ۔

توہاتھ لگانے یعنی دخول سے قبل اورمہر مقرر کرنے سے قبل طلاق کی اباحت عقد نکاح میں مہر کے ذکر نہ کرنے پر دلالت کرتی ہے ۔

اوراگر عقدمیں مہر کا نام نہیں لیا گیا توخاوند پر مہر واجب ہوگا ، اوراگرعقد نکاح میں ذکر نہیں کیا جاتا توپھر خاوند پر مہر مثل واجب ہوگا ، یعنی اس جیسی دوسری عورتوں جتنا مہر دینا ہوگا ۔

ب – نان ونفقہ :

علماء اسلام کا اس پر اجماع ہے کہ بیویوں کا خاوند پر نان ونفقہ واجب ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اگرعورت اپنا آپ خاوند کے سپرد کردے توپھرنفقہ واجب ہوگا ، لیکن اگر بیوی اپنے خاوندکونفع حاصل کرنے سے منع کردیتی ہے یا پھر اس کی نافرمانی کرتی ہے تواسے نان ونفقہ کا حقدار نہیں سمجھا جائے گا ۔

بیوی کے نفقہ کے وجوب کی حکمت :

عقد نکاح کی وجہ سے عورت خاوند کے لیے محبوس ہے ، اورخاوند کے گھر سے اس کی اجازت کے بغیر نکلنا منع ہے ، تواس لیے خاوند پرواجب ہے کہ وہ اس کے بدلے میں اس پرخرچہ کرے ، اوراس کے ذمہ ہے کہ وہ اس کوکفائت کرنے والا خرچہ دے ، اوراسی طرح یہ خرچہ عورت کا اپنے آپ کوخاوند کے سپرد کرنے اوراس سے نفع حاصل کرنے کے بدلے میں ہے ۔

نان ونفقہ کا مقصد :

بیوی کی ضروریات پوری کرنا مثلا کھانا ، پینا ، رہائش وغیرہ ، یہ سب کچھ خاوند کے ذمہ ہے اگرچہ بیوی کے پاس اپنا مال ہو اوروہ غنی بھی ہوتوپھر بھی خاوند کے ذمہ نان ونفقہ واجب ہے ۔

اس لیے کہ اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے :

اورجن کے بچے ہیں ان کے ذمہ ان عورتوں کا روٹی کپڑا اوررہائش دستور کے مطابق ہے البقرۃ ( 233 )

اورایک دوسرے مقام پر اللہ تعالی نے کچھ اس طرح فرمایا :

اورکشادگي والا اپنی کشادگي میں سے خرچ کرے اورجس پر رزق کی تنگی ہو اسے جو کچھ اللہ تعالی نے دیا ہے اس میں سے خرچ کرنا چاہيے الطلاق ( 7 ) ۔

سنت نبویہ میں سے دلائل :

ھند بنت عتبہ رضي اللہ تعالی عنہا جوکہ ابوسفیان رضي اللہ تعالی عنہ کی بیوی تھیں نے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ ابوسفیان اس پر خرچہ نہیں کرتا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا تھا :

( آپ اپنے اوراپنی اولاد کے لیے جوکافی ہو اچھے انداز سے لے لیا کرو ) ۔

عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ ابوسفیان کی بیوی ھندبنت عتبہ رضي اللہ تعالی عنہما نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئي اورکہنے لگی :

اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ابوسفیان بہت حریص اور بخیل آدمی ہے مجھے وہ اتنا کچھ نہيں دیتا جوکہ مجھے اور میری اولاد کے لیے کافی ہو الا یہ کہ میں اس کا مال اس کے علم کے بغیر حاصل کرلوں ، توکیا ایسا کرنا میرے لیے کوئي گناہ تونہیں ؟

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے :

تواس کے مال سے اتنا اچھے انداز سے لے لیا کرجوتمہیں اورتمہاری اولاد کوکافی ہو ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 5049 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1714 ) ۔

جابر رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبۃ الوداع کے موقع پر فرمایا :

( تم عورتوں کے بارہ میں اللہ تعالی سے ڈرو ، بلاشبہ تم نے انہيں اللہ تعالی کی امان سے حاصل کیا ہے ، اوران کی شرمگاہوں کواللہ تعالی کے کلمہ سے حلال کیا ہے ، ان پر تمہارا حق یہ ہے کہ جسے تم ناپسند کرتےہووہ تمہارے گھر میں داخل نہ ہو، اگر وہ ایسا کریں توتم انہيں مار کی سزا دو جوزخمی نہ کرے اورشدید تکلیف دہ نہ ہو، اوران کا تم پر یہ حق ہے کہ تم انہيں اچھے اور احسن انداز سے نان و نفقہ اوررہائش دو ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1218 ) ۔

ج – سکنی یعنی رہائش :

یہ بھی بیوی کے حقوق میں سے ہے کہ خاوند اس کے لیے اپنی وسعت اورطاقت کے مطابق رہائش تیار کرے ۔

اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

تم اپنی طاقت کے مطابق جہاں تم رہتے ہو وہا ں انہيں بھی رہائش پذیر کرو الطلاق ( 6 ) ۔

2 – غیرمالی حقوق :

ا – بیویوں کے درمیان عدل وانصاف :

بیوی یا اپنے خاوند پر حق ہے کہ اگر اس کی اور بھی بیویاں ہوں تووہ ان کے درمیان رات گزارنے ، نان ونفقہ اورسکن وغیرہ میں عدل و انصاف کرے ۔

ب – حسن معاشرت :

خاوند پر واجب ہے کہ وہ اپنی بیوی سے اچھے اخلاق اورنرمی کا برتاؤ کرے ، اوراپنی وسعت کے مطابق اسے وہ اشیاء پیش کرے جواس کےلیے محبت والفت کا با‏عث ہوں ۔

اس لیے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

اوران کے ساتھ حسن معاشرت اوراچھے انداز میں بود باش اختیار کرو النساء ( 19 ) ۔

اورایک دوسرے مقام پر کچھ اس طرح فرمايا :

اورعورتوں کے بھی ویسے ہی حق ہیں جیسے ان پر مردوں کے حق ہیں البقرۃ ( 228 ) ۔

سنت نبویہ میں ہے کہ :

ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( عورتوں کے بارہ میں میری نصیحت قبول کرو اوران سے حسن معاشرت کا مظاہرہ کرو ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 3153 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1468 ) ۔

اب ہم ذيل میں چندایک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنی بیویوں کےساتھ حسن معاشرت کے نمونے پیش کرتے ہیں ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہمارے لیے قدوہ اوراسوہ اورآئڈیل ہيں :

1 - زينب بنت ابی سلمہ کہتی ہيں کہ ام سلمہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چادرمیں تھی تومجھے ایام حیض شروع ہوگئے جس کی بنا پر میں اس چادر سے کھسک کر نکل گئي اورجا کر حیض والے کپڑے پہن لیے ، تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کہنے لگے کیا حیض آگیا ہے ؟

میں نے جواب دیا جی ہاں ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا اوراپنے ساتھ چادر میں داخل کرلیا ۔

وہ کہتی ہے کہ ام سلمہ رضي اللہ تعالی عنہا نے مجھے حدیث بیان کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم روزہ کی حالت میں ان کا بوسہ لیا کرتے تھے ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم اور میں ایک ہی برتن سے اکٹھے غسل جنابت بھی کیا کرتے تھے ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 316 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 296 ) ۔

2 – عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا نے فرمایا :

اللہ تعالی کی قسم میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے حجرہ کے دروازہ پر کھڑے دیکھا اورحبشی لوگ اپنے نیزوں سے مسجدنبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں کھیلا کرتے تھے ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی چادر سے مجھے چھپایا کرتے تھے تا کہ میں ان کے کھیل کودیکھ سکوں ، پھر وہ میری وجہ سے وہاں ہی کھڑے رہتے حتی کہ میں خود ہی وہاں سے چلی جاتی ، تونوجوان لڑکی جوکہ کھیلنے پر حریص ہوتی ہے اس کی قدر کیا کرو ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 443 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 892 ) ۔

3 – ام المومنین عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کرنماز پڑھتے اورقرات بھی بیٹھ کرکرتے تھے جب تیس یا چالیس آیات کی قرات باقی رہتی توکھڑے ہوکر پڑھتے پھر رکوع کرنے کے بعد سجدہ کرتے پھر دوسری رکعت میں بھی اسی طرح کرتے اورنماز سے فارغ ہوکر مجھے دیکھتے اگرمیں سوئی ہوئی نہ ہوتی تو مجھ سے باتيں کرتے ، اوراگرمیں سوچکی ہوتی توآپ بھی لیٹ جاتے ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1068 ) ۔

ج – بیوی کوتکلیف سے دوچارنہ کرنا :

یہ اسلامی اصول بھی ہے ، اورجب کسی اجنبی اوردوسرے تیسرے شخص کونقصان اورتکلیف دینا حرام ہے توپھر بیوی کوتکلیف اورنقصان دینا تو بالاولی حرام ہوگا ۔

عبادہ بن صامت رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ فرمایا کہ :

( نہ تواپنے آپ کونقصان دو اورنہ ہی کسی دوسرے کو نقصان دو ) سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 2340 ) اس حدیث کو امام احمد ، امام حاکم ، اورابن صلاح وغیرہ نے صحیح قرار دیا ہے ۔

دیکھیں کتاب : خلاصۃ البدر المنیر ( 2 / 438 ) ۔

اس مسئلہ میں شارع نے جس چيز پر تنبیہ کی ہے ان میں ایسی مار کی سزا دینا جوشدید اورسخت قسم کی ہو ۔

جابر رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا تھا :

( تم عورتوں کے بارہ میں اللہ تعالی سے ڈرو ، بلاشبہ تم نے انہيں اللہ تعالی کی امان سے حاصل کیا ہے ، اوران کی شرمگاہوں کواللہ تعالی کے کلمہ سے حلال کیا ہے ، ان پر تمہارا حق یہ ہے کہ جسے تم ناپسند کرتےہووہ تمہارے گھر میں داخل نہ ہو، اگر وہ ایسا کریں توتم انہيں مار کی سزا دو جوزخمی نہ کرے اورشدید تکلیف دہ نہ ہو، اوران کا تم پر یہ حق ہے کہ تم انہيں اچھے اور احسن انداز سے نان و نفقہ اوررہائش دو ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1218 ) ۔

دوم : بیوی پر خاوند کے حقوق :

بیوی پر خاوند کے حقوق بہت ہی عظیم حیثیت رکھتے ہیں بلکہ خاوند کے حقوق توبیوی کے حقوق سے بھی زيادہ عظیم ہیں اس لیے کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا ہے :

اوران عورتوں کے بھی ویسے ہی حقوق ہيں جیسے ان مردوں کے ہیں اچھائي کے ساتھ ، ہاں مردوں کوان عورتوں پر درجہ اورفضیلت حاصل ہے البقرۃ ( 228 ) ۔

جصاص رحمہ اللہ کا کہنا ہے :

اللہ تعالی نے اس آیت میں یہ بیان کیا ہے کہ خاوند اوربیوی دونوں کے ایک دوسرے پر حق ہیں ، اورخاوند کوبیوی پر ایسے حق بھی ہیں جوبیوی کے خاوند پر نہیں ۔

اورابن العربی کا کہنا ہے :

یہ اس کی نص ہے کہ مرد کوعورت پر فضیلت حاصل ہے اورنکاح کے حقوق میں بھی اسے عورت پر فضیلت حاصل ہے ۔

اوران حقوق میں سے کچھ یہ ہیں :

ا – اطاعت کا وجوب :

اللہ تعالی نے مرد کوعورت پرحاکم مقررکیا ہے جواس کا خیال رکھے گا اوراس کی راہنمائی اوراسے حکم کرے گا جس طرح کہ حکمران اپنی رعایا پر کرتے ہیں ، اس لیے کہ اللہ تعالی نے مرد کوکچھ جسمانی اورعقلی خصائص سے نوازا ہے ، اوراس پر کچھ مالی امور بھی واجب کیے ہیں ۔

اللہ تعالی کافرمان ہے :

مرد عورتوں پر حاکم ہیں اس وجہ سے کہ اللہ تعالی نے ایک کودوسرے پر فضيلت دی ہے اوراس وجہ سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کیے ہیں النساء ( 34 ) ۔

حافظ ابن کثیررحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

علی بن ابی طلحہ نے ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما سے بیان کیا ہے کہ مرد عورتوں پر حاکم ہیں یعنی وہ ان پر حاکم اورامیر ہیں ، یعنی ان کی اللہ تعالی کے حکم کے مطابق اطاعت کی جائے گی ، اوراس کی اطاعت اس کے اہل وعیال کے لیے احسان اوراس کے مال کی محافظ ہوگی ۔

مقاتل ، سدی ، اورضحاک رحمہم اللہ تعالی نے بھی ایسے ہی کہا ہے ۔ دیکھیں تفسیر ابن کثیر ( 1 / 492 ) ۔

ب – خاوند کے لیے استمتاع ممکن بنانا :

خاوند کا بیوی پر حق ہے کہ وہ بیوی سے نفع حاصل کرے ، جب عورت شادی کرلے اوروہ جماع کی اہل بھی ہو توعورت پر واجب ہے کہ وہ اپنے آپ کوعقد نکاح کی بنا پر خاوند کے طلب کرنے پر خاوند کے سپرد کردے ۔

وہ اس طرح کہ اسے مہر ادا کرے اورعورت اگرمطالبہ کرے تواسے حسب عادت ایک یا دو دن کی مہلت دے کہ وہ رخصتی کےلیے اپنے آپ کوتیار کرلے کیونکہ یہ اس کی ضرورت ہے اوریہ بہت ہی آسان سی بات ہے جو کہ عادتا معروف بھی ہے ۔

اورجب بیوی جماع کرنے میں خاوند کی بات تسلیم نہ کرے تویہ ممنوع ہے اوروہ کبیرہ کی مرتکب ہوئي ہے ، لیکن اگر کوئي شرعی عذر ہوتو ایسا کرسکتی ہے مثلا حیض ، یا فرضی روزہ ، اور بیماری وغیرہ ہو ۔

ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( جب مرد اپنی بیوی کواپنے بستر پر بلائے اوربیوی انکار کردے توخاوند اس پر رات ناراضگي کی حالت میں بسر کرے توصبح ہونے تک فرشتے اس پر لعنت کرتے رہتے ہیں ) صحیح بخاری حديث نمبر ( 3065 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1436 ) ۔

ج – خاوند جسے ناپسند کرتا ہواسے گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہ دینا :

خاوند کا بیوی پر یہ بھی حق ہے کہ وہ اس کے گھر میں اسے داخل نہ ہونے دے جسے اس کا خاوند ناپسند کرتا ہے ۔

ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( کسی بھی عورت کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ خاوند کی موجودگی میں ( نفلی ) روزہ رکھے لیکن اس کی اجازت سے رکھ سکتی ہے ، اورکسی کوبھی اس کے گھرمیں داخل ہونے کی اجازت نہ لیکن اس کی اجازت ہو توپھر داخل کرے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 4899 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1026 ) ۔

سلیمان بن عمرو بن احوص بیان کرتے ہیں کہ مجھے میرے والد رضی اللہ تعالی عنہ نے حدیث بیان کی کہ وہ حجۃ الوداع میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حاضر ہوئے تھے تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی کی حمد وثنا بیان کی اوروعظ ونصیحت کرنے کے بعد فرمایا :

( عورتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو اورمیری نصیحت قبول کرو ، وہ تو تمہارے پاس قیدی اوراسیر ہيں ، تم ان سے کسی چيز کے مالک نہيں لیکن اگروہ کوئي فحش کام اورنافرمانی وغیرہ کریں توتم انہيں بستروں سے الگ کردو ، اورانہیں مار کی سزا دولیکن شدید اورسخت نہ مارو ، اگر تووہ تمہاری اطاعت کرلیں توتم ان پر کوئي راہ تلاش نہ کرو ، تمہارے تمہاری عورتوں پر حق ہیں اورتمہاری عورتوں کے بھی تم پر حق ہیں ، جسے تم ناپسند کرتے ہووہ تمہارے گھر میں داخل نہ ہو ، اورنہ ہی اسے اجازت دے جسے تم ناپسند کرتے ہو ، خبردار تم پر ان کے بھی حق ہيں کہ ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو اورانہیں کھانا پینا اوررہائش بھی اچھے طریقے سے دو ) سنن ترمذی حدیث نمبر ( 1163 ) سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 1851 ) امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی نے اسے حسن صحیح قرار دیا ہے ۔

جابر رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( تم عورتوں کے بارہ میں اللہ تعالی سے ڈرو ، بلاشبہ تم نے انہيں اللہ تعالی کی امان سے حاصل کیا ہے ، اوران کی شرمگاہوں کواللہ تعالی کے کلمہ سے حلال کیا ہے ، ان پر تمہارا حق یہ ہے کہ جسے تم ناپسند کرتےہووہ تمہارے گھر میں داخل نہ ہو، اگر وہ ایسا کریں توتم انہيں مار کی سزا دو جوزخمی نہ کرے اورشدید تکلیف دہ نہ ہو، اوران کا تم پر یہ حق ہے کہ تم انہيں اچھے اور احسن انداز سے نان و نفقہ اوررہائش دو ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1218 ) ۔

د – خاوند کی اجازت کے بغیر گھر سے نکلنا :

خاوند کا بیوی پر یہ حق ہے کہ وہ گھر سے خاوند کی اجازت کے بغیر نہ نکلے ۔

شافعیہ اورحنابلہ کا کہنا ہے کہ : عورت کے لیے اپنے بیمار والد کی عیادت کے لیے بھی خاوند کی اجازت کے بغیر نہیں جاسکتی ، اورخاوند کواس سے منع کرنے کا بھی حق ہے ۔۔۔ اس لیے کہ خاوند کی اطاعت واجب ہے توواجب کوترک کرکے غیرواجب کام کرنا جائز نہيں ۔

ھـ - تادیب : خاوند کوچاہیے کہ وہ بیوی کی نافرمانی کے وقت اسے اچھے اوراحسن انداز میں ادب سکھائے نہ کہ کسی برائي کے ساتھ ، اس لیے کہ اللہ تعالی نے عورتوں کواطاعت نہ کرنے کی صورت میں علیحدگي اورہلکی سی مارکی سزا دے کرادب سکھانے کا حکم دیا ہے ۔

علماء احناف نے چارمواقع پر عورت کومار کے ساتھ تادیب جائز قرار دی ہے جو مندرجہ ذيل ہیں :

1- جب خاوند چاہے کہ بیوی بناؤ سنگار کرے اوربیوی اسے ترک کردے

2- جب بیوی طہر کی حالت میں ہواورخاوند اسے مباشرت کے لیے بلائے توبیوی انکار کردے ۔

3- نماز نہ پڑھے ۔

4- خاوند کی اجازت کے بغیر گھر سے نکلے ۔

تادیب کے جواز پر دلائل :

اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

اورجن عورتوں کی نافرمانی اوربددماغی کا تمہیں ڈر اورخدشہ ہوانہيں نصیحت کرو ، اورانہیں الگ بستروں پر چھوڑ دو ، اورانہیں مار کی سزا دو النساء ( 34 ) ۔

اورایک دوسرے مقام پر اللہ تعالی کا فرمان کچھ اس طرح ہے :

اے ایمان والو ! اپنے آپ اوراپنےاہل وعیال کواس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن لوگ اورپتھر ہیں التحریم ( 6 ) ۔

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :

قتادہ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں : آپ انہیں اللہ تعالی کی اطاعت کا حکم دیں ، اوراللہ تعالی کی معصیت ونافرمانی کرنے سے روکیں ، اوران پر اللہ تعالی کے احکام نافذ کریں ، انہیں ان کا حکم دیں ، اور اس پر عمل کرنے کے لیے ان کا تعاون کریں ، اورجب انہیں اللہ تعالی کی کوئی معصیت ونافرمانی کرتے ہوئے دیکھیں توانہیں اس سے روکیں اوراس پر انہیں ڈانٹیں ۔

ضحاک اورمقاتل رحمہم اللہ تعالی نے بھی اسی طرح کہا ہے :

مسلمان کا حق ہے کہ وہ اپنے قریبی رشتہ داروں ، گھروالوں اوراپنے غلاموں اورلونڈیوں کواللہ تعالی کے فرائض کی تعلیم دے اورجس سے اللہ تعالی منع کیا ہے وہ انہیں سکھائے ۔

دیکھیں تفسیر ابن کثیر ( 4 / 392 ) ۔

و – بیوی کا اپنے خاوند کی خدمت کرنا :

اس پر بہت سے دلائل ہيں جن میں سے کچھ کا ذکر تو اوپربیان ہوچکاہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کا قول ہے:

بیوی پر اپنے خاوند کی اچھے اوراحسن انداز میں ایک دوسرے کی مثل خدمت کرنا واجب ہے ، اوریہ خدمت مختلف حالات کے مطابق ہوتی ہے ، توایک دیھاتی عورت کی خدمت شہرمیں بسنے والی عورت کی طرح نہیں ، اوراسی طرح ایک طاقتور عورت کی خدمت کمزوراورناتواں عورت کی طرح نہیں ہوسکتی ۔

دیکھیں الفتاوی الکبری ( 4 / 561 ) ۔

ز - عورت کا اپنا آپ خاوند کے سپرد کرنا :

جب عقدنکاح مکمل اورصحیح شروط کے ساتھ پورا اورصحیح ہو توعورت پر واجب ہے کہ وہ اپنے آپ کوخاوند کے سپرد کردے اوراسے استمتاع ونفع اٹھانے دے ، اس لیے کہ عقد نکاح کی وجہ سے عوض خاوند کے سپرد ہونا چاہیے ، جو کہ استمتاع اورنفع کی صورت میں ہے ، اوراسی طرح عورت بھی عوض کی مستحق ہے جو کہ مہر کی صورت میں دیا جاتا ہے ۔

ح – بیوی کی اپنے خاوند سے حسن معاشرت :

اس کی دلیل اللہ تعالی کا فرمان ہے :

اورعورتوں کے بھی ویسے ہی حق ہیں جیسے ان مردوں کے ہیں اچھائي کے ساتھ البقرۃ ( 228 ) ۔

امام قرطبی رحمہ اللہ تعالی کا قول ہے :

ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما سے ہی روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا : یعنی ان عورتوں کے لیے حسن صحبت ، اوراچھے اوراحسن انداز میں معاشرت بھی ان کے خاوندوں پراسی طرح ہے جس طرح ان پر اللہ تعالی نے خاوندوں کی اطاعت واجب کی ہے ۔

اوریہ بھی کہا گيا ہے :

ان عورتوں کے لیے یہ بھی ہے کہ ان کے خاوند انہيں تکلیف اورضرر نہ دیں جس طرح ان عورتوں پر خاوندوں کے لیے ہے ۔ یہ امام طبری کا قول ہے ۔

اورابن زید رحمہ اللہ تعالی عنہ کہتے ہيں :

تم ان عورتوں کے بارہ میں اللہ تعالی کا تقوی اختیار کرو اوراس سے ڈرو ، جس طرح کہ ان عورتوں پربھی ہے کہ وہ بھی تمہارے بارہ میں اللہ تعالی کا تقوی اختیار کريں اورڈريں ۔

اورمعنی قریب قریب سب ایک ہی ہے ، اورمندرجہ بالا آیت سب حقوق زوجیت کوعام ہے ۔

دیکھیں تفسیر القرطبی ( 3 / 123- 124 ) ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد