بدھ 24 جمادی ثانیہ 1446 - 25 دسمبر 2024
اردو

عقد فاسد کی تجدید کرنا واجب ہے چاہے اسے دس برس گذر چکے ہوں

سوال

ہمیں یہ تو علم ہے کہ شریعت اسلامیہ کے مطابق عورت کے ولی کی رضامندی کے بغیر شادی نہیں ہوسکتی ، بہت سے ایسے واقعات و حالات ہیں کہ لڑکا اورلڑکی آپس میں رضامندہوتے ہیں اورلڑکی گھر سے بھاگ کر اس کے ساتھ شادی کرلیتی ہے ، تومیرا سوال یہ ہے کہ :
جب یہ شادی صحیح نہیں تو یہ لوگ اپنی اس شادی کو کس طرح صحیح کریں ، اورجبکہ اس شادی کو پانچ یا دس برس گزر چکے ہوں اوران کے بچے بھی ہوں ؟
ایک دوسرا سوال بھی ہے کہ : جب لڑکا اورلڑکی بھاگ کر شادی کرلیں اورمثلا دو یا چار برس بعد والدین اس شادی پر رضا مندی کا اظہار کریں تو کیا یہ شادی صحیح ہوگی ، اوراس شادی کو کس طرح صحیح کیا جاسکتا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جوعورت بھی اپنے ولی کی اجازت اوررضامندی کے بغیر شادی کرے اس کا نکاح باطل ہے ، اورچاہے اس کو دس برس بھی گزر جائيں یہ صحیح نہیں ہوگا اوراگرچہ ان کی اولاد بھی ہو بلکہ ولی کی رضامندی و موافقت سے اس نکاح کا دوبارہ کرنا واجب ہے ، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

( ولی اوردو گواہوں کے بغیر نکاح نہیں ہوتا ) مسند احمد سنن ترمذی ، سنن ابن ماجہ ، سنن ابوداود ، دیکھیں صحیح الجامع حدیث نمبر ( 7298 ) ۔

جو عورت خود ہی اپنا نکاح کرلے اس کے لیے حدیث میں بہت سخت وعید وارد ہوئي ہے ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تواس کے بارہ میں فرمایا ہے کہ وہ زانیہ ہے ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ اس طرح فرمایا :

( کوئي عورت کسی عورت کی شادی نہ کرے ، اورنہ ہی عورت خود اپنی شادی کرے ، جوعورت خود ہی اپنی شادی کرے گي وہ زانیہ ہے ) سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 1782 ) دیکھیں صحیح الجامع حدیث نمبر ( 7298 ) ۔

اوردوسرے سوال کے بارہ میں ہم گزارش کریں گے کہ :

کہ اگر ولی اس شادی میں موافقت کرلے تو واجب یہ ہے کہ نکاح دوبارہ کیا جائے کیونکہ پہلا عقد نکاح صحیح نہیں تھا ۔

اورخاوند اوربیوی کو اللہ تعالی کے سامنے اپنے کیے کی خالص اورسچی توبہ کرنی چاہیے اللہ تعالی بخشنے والارحم کرنے والا ہے ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد