جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

رشتہ دار خواتین جن سے کبھی نکاح نہیں ہو سکتا۔

سوال

برائے مہربانی کیا آپ مجھے رشتہ داروں میں شادی کرنے کا کوئی اسلامی ضابطہ اور اصول بتلا سکتے ہیں؟ کیونکہ مجھے یہ تو پتہ ہے کہ مسلمان کی اپنے چچا کی اولاد چاہے بیٹا ہو یا بیٹی اس سے شادی ہو سکتی ہے، لیکن والد کے چچا کی اولاد سے شادی ہو سکتی ہے یا نہیں؟ اسی طرح میری بیٹی کی میری ساس کے بھتیجوں سے شادی ہو سکتی ہے یا نہیں؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اللہ تعالی نے رشتہ دار محرمات ابدیہ خواتین کا تذکرہ سورت النساء میں فرمایا ہے، فرمان باری تعالی ہے:
حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ وَعَمَّاتُكُمْ وَخَالَاتُكُمْ وَبَنَاتُ الْأَخِ وَبَنَاتُ الْأُخْتِ
 ترجمہ: تم پر حرام کر دی گئی ہیں تمہاری مائیں، اور تمہاری بیٹیاں، اور تمہاری بہنیں اور تمہاری پھوپھیاں، اور تمہاری خالائیں، اور بھتیجیاں، اور بھانجیاں ۔۔۔ [النساء: 23]

الشیخ ابن عثیمین رحہ اللہ کہتے ہیں:
"تو یہ نصاً اور اجماعاً سات محرمات ابدیہ ہیں ، ان کے متعلق اہل علم میں سے کسی نے بھی اختلاف نہیں کیا۔" ختم شد
"الشرح الممتع" (12/53)

یہ سات محرمات ابدیہ درج ذیل ہیں:
1- ماں، اس میں نانی اور دادی دونوں ہی شامل ہیں۔

2- بیٹی، اس میں پوتیاں بھی شامل ہیں۔

3- بہن، اس میں سگی بہن، والدہ کی طرف سے اخیافی بہن اور والد کی طرف سے علاتی بہن بھی شامل ہے۔

4- پھوپھی، اس میں والد یا والدہ کی پھوپھی بھی شامل ہے۔

5- خالہ، اس میں والد یا والدہ کی خالہ بھی شامل ہے۔

6- بھتیجی، اس میں بھائی کی پوتیاں بھی شامل ہیں۔

7- بھانجی، اس میں بہن کی پوتیاں بھی شامل ہیں۔

رشتہ داروں میں ان کے علاوہ جتنی بھی خواتین ہیں ان سے نکاح حلال ہے، اسی لیے اللہ تعالی نے اس آیت کے بعد فرمایا:
وَأُحِلَّ لَكُمْ مَا وَرَاءَ ذَلِكُمْ
 ترجمہ: اور تمہارے لیے جو ان کے علاوہ ہیں حلال قرار دی گئی ہیں۔[النساء: 24]

اس بنا پر: چچا اور پھوپھی کی بیٹی اور اسی طرح ماموں اور خالہ کی بیٹی سے نکاح حلال ہے، اور اس کے بارے میں قرآن کریم نے صراحت بھی کی ہے ، چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے:
يا أَيُّهَا النَّبِىُّ إِنَّآ أَحْلَلْنَا لَكَ أَزْوَاجَكَ اللاَّتِى ءَاتَيْتَ أُجُورَهُنَّ وَمَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ مِمَّآ أَفَآءَ اللَّهُ عَلَيْكَ وَبَنَاتِ عَمِّكَ وَبَنَاتِ عَمَّاتِكَ وَبَنَاتِ خَالِكَ وَبَنَاتِ خَالَاتِكَ
 ترجمہ: اے نبی! ہم نے آپ پر آپ کی وہ بیویاں حلال کر دی ہیں جن کے حق مہر آپ ادا کر چکے ہیں اور وہ کنیزیں بھی جو آپ کی ملکیت میں ہیں جو اللہ نے آپ کو غنیمت کے مال سے دی ہیں۔ نیز آپ کے لیے چچا، پھوپھیوں ماموں اور خالاؤں کی بیٹیاں حلال ہیں۔۔۔[الاحزاب: 50]

ان تمام تر تفصیلات کی بنا پر ایک لڑکی کی شادی اپنے والد کے چچا کے بیٹے سے ہو سکتی ہے؛ کیونکہ کسی انسان کا چچا ، اس انسان کی اولاد کے لیے بھی چچا کا ہی حکم رکھتا ہے، لہذا لڑکی کے والد کا چچا ، لڑکی کا بھی چچا ہی لگا، اور اس کا بیٹا اس لڑکی کے لیے چچا کا بیٹا ہوا، اور لڑکی کی شادی اس کے چچا زاد سے ہو سکتی ہے۔

اسی طرح آپ کی بیٹی کا نکاح آپ کی ساس کے بھتیجے سے ہو سکتا ہے؛ کیونکہ آپ کی ساس کا بھائی آپ کی بیٹی کا ماموں لگا؛ کیونکہ وہ اس لڑکی کے والد کا بھی ماموں ہے، اور والد کا ماموں اولاد کے لیے بھی ماموں کا حکم ہی رکھتا ہے، اور یہ جائز ہے کہ کسی لڑکی کا اپنے ماموں کے بیٹے سے نکاح ہو جائے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب