الحمد للہ.
كتابى عورت كے مسلمان خاوند كے ليے بيوى كو اپنے گھر ميں دينى تہوار منانے كى اجازت دينى جائز نہيں، كيونكہ مرد كو عورت پر حكمرانى حاصل ہے، اس ليے عورت كو حق نہيں كہ وہ اپنے خاوند كے گھر ميں اپنا ايسا تہوار منائے جس كے نتيجہ ميں خرابى پيدا ہو اور حرام كام كيے جائيں، اور خاوند كے مسكن ميں كفريہ شعار كا اظہار ہو.
خاوند كو چاہيے كہ وہ اپنى اولاد كو بدعتى تہواروں ميں شريك نہ ہونے دے، كيونكہ اولاد اپنے باپ كے تابع ہے، اس بنا پر اسے ان حرام تہواروں سے دور ركھنا چاہيے، بلكہ وہ اپنى اولاد كى راہنمائى كرتے ہوئے فائدہ مند اشياء اور امور كى طرف متوجہ كرے، اگرچہ ايسا كرنے سے اس كے بيوى كے تعلقات پر اثر بھى ہو تو بھى اسے اولاد كو ان تہواروں ميں شريك نہيں ہونے دينا چاہيے اور نہ ہى بيوى كو اپنے گھر ميں ايسے تہوار منانے كى اجازت دينى چاہيے، اس ليے كہ دينى مصلحت اور دين كى حفاظت جو كہ سب سے اہم شرعى مقاصد ميں شامل ہوتا ہے سب چيز پر مقدم ہے.
امام احمد رحمہ اللہ سے ايسے شخص كے بارہ ميں سوال كيا گيا جس كى بيوى عيسائى تھى كيا وہ اسے عيسائى تہوار منانے كے ليے چرچ جانے كى اجازت دے سكتا ہے يا نہيں ؟ تو امام احمد رحمہ اللہ نے جواب نفى ميں ديتے ہوئے كہا كہ اسے اجازت نہيں دينى چاہيے.
اور ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اگرچہ بيوى ذمى بھى تو بھى مسلمان خاوند كو چرچ جانے سے روكنے كا حق حاصل ہے، كيونكہ يہ اطاعت كا كام نہيں.
ديكھيں: المغنى ابن قدامۃ ( 1 / 21 ).
اس ليے جب ان علماء كرام نے كتابى بيوى كو چرچ جانے سے منع كر ديا ہے تو پھر اسے گھر ميں كرسمس وغيرہ كے تہوار منانے كى اجازت كيسے دى جا سكتى ہے كہ وہ ايك مسلمان كے گھر ميں كفريہ تہوار مناتى پھرے ؟
ان تہواروں كے متعدى نقصانات بہت زيادہ ہيں جو صرف چرچ جانے سے پيدا ہوتے ہيں وہ كسى پر مخفى نہيں.
واللہ اعلم .