جمعرات 20 جمادی اولی 1446 - 21 نومبر 2024
اردو

طلاق سے قبل بيوى كو حقوق سے دستبردار ہونے پر مجبور كرنا جائز نہيں

42532

تاریخ اشاعت : 27-11-2010

مشاہدات : 6221

سوال

طلاق سے قبل بيوى كو حقوق سے دستبردار ہونے پر مجبور كرنے كا حكم كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

خاوند كے ليے جائز نہيں كہ وہ ببيوى كى رضامندى و خوشى كے بغير اس كا مال ركھ لے، اور مہر بھى بيوى كے مال ميں شامل ہوتا ہے، ليكن اگر بيوى كوئى واضح فحش اور بے حيائى والا كام كرے تو پھر ہو سكتا ہے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

ہاں اگر وہ اپنى خوشى سے كچھ مہر چھوڑ ديں تو اسے شوق سے خوش ہو كر كھا لو النساء ( 4 ).

اور ايك مقام پر اللہ رب العزت كا فرمان ہے:

اور انہيں اس ليے روك نہ ركھو كہ جو تم نے انہيں دے ركھا ہے، اس ميں سے كچھ لے لو، ہاں يہ اور بات ہے كہ وہ كھلى برائى اور بےحيائى كريں النساء ( 19 ).

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اس پر متفق ہيں كہ عورت كا مال لينا منع ہے، الا يہ كہ بيوى كى جانب سے نافرمانى اور ترفع ہو اور وہ زندگى خراب كرنے كا باعث بن رہى ہو.

ابن منذر رحمہ اللہ نے نعمان سے بيان كيا ہے كہ:

" جب ظلم و ستم اور ترفع خاوند كى جانب سے ہو تو بيوى خلع حاصل كر لے يہ جائز ہے اور جارى ہوگا، اور خاوند گنہگار ہوگا، اس نے جو كچھ كيا ہے وہ اس كے ليے حلال نہيں اور اس نے جو كچھ ليا ہے اسے واپس كرنے پر مجبور نہيں كيا جائيگا.

ابن منذر كہتے ہيں:

" اس كا يہ قول كتاب كے ظاہر كے خلاف ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى ثابت شدہ سنت كے بھى خلاف ہے، اور پھر عام اہل علم كے اجماع كے بھى خلاف ہے "

ديكھيں: المغنى ( 3 / 137 ).

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" چنانچہ مرد كے ليے عورت كو روك كر ركھنا جائز نہيں كہ وہ اسے روك كر تنگ كرے تا كہ وہ خاوند كو مہر كا كچھ حصہ واپس كر دے، اور نہ ہى وہ اس ليے اسے مار سكتا ہے.

ليكن اگر بيوى كوئى واضح برائى اور بےحيائى كا كام كرتى ہے تو پھر خاوند كو روك كر ركھنے كا حق حاصل ہے تا كہ وہ اس سے چھٹكارا حاصل كرنے كے ليے فديہ دے، اور خاوند كو مارنے كا بھى حق حاصل ہے.

يہ اس وقت ہے جب بندے اور اللہ كے مابين معاملہ ہو، اور عورت كے گھر والوں كو چاہيے كہ وہ حق كو ديكھ كر اس كے مطابق عمل كريں جس كے ساتھ حق ہو اس كى مدد كريں، اگر واضح ہو كہ عورت نے اللہ كى حدود پامال كى ہيں اور خاوند كے بستر كو گندا كر كے خاوند كو اذيت و تكليف سے دوچار كيا ہے تو عورت ظالم ہے اور زيادتى كرنے والى ہے تو وہ خاوند كو فديہ دے كر اپنى جان چھڑائے " اھـ

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 32 / 137 ).

فرمان بارى تعالى:

اور تم انہيں اس ليے روك كر نہ ركھو كہ انہيں جو كچھ دے ركھا ہے اس ميں كچھ لے لو، ہاں يہ اور بات ہے كہ اگر وہ واضح اور كھلى برائى اور بےحيائى والا كام كريں النساء ( 19 ).

اس ميں بے حيائى اور فحش كام سے مراد زنا اور عدم عفت اور سوء معاشرت ہے مثلا فحش كلام اور خاوند كو اذيت و تكليف دينا "

ديكھيں: تفسير السعدى ( 242 ).

واللہ اعلم  .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب