جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

منقطع تعلقات اور رشتہ داریاں

سوال

صلہ رحمی کا کیا مطلب ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

مسلمانوں کے مابین صلہ رحمی کے لیے سماجی روابط کے فروغ ، باہمی تعاون اور محبت میں اضافے کی وجہ سے اسلام نے صلہ رحمی کی دعوت دی ہے ۔ اس لیے اللہ تعالی کے فرمان وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ  ترجمہ: اللہ سے ڈرو اور رشتہ داری توڑنے سے بچو کہ جس کے واسطے سے تم سوال کرتے ہو [النساء: 1] کی وجہ سے صلہ رحمی واجب ہے، اسی طرح اس کے واجب ہونے کی ایک دلیل یہ آیت بھی ہے: وَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ ترجمہ: قریبی رشتہ داروں اور مسکین کو دو۔ [الاسراء: 26]

پھر اللہ تعالی نے قطع رحمی سے یہ کہتے ہوئے ڈرایا بھی ہے کہ: وَالَّذِينَ يَنْقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ مِنْ بَعْدِ مِيثَاقِهِ وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَنْ يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ أُولَئِكَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ
 ترجمہ: اور وہ لوگ جو اللہ کے وعدے کو پختہ کرنے کے بعد توڑ دیتے ہیں، اور جس سے صلہ رحمی کا اللہ نے حکم دیا ہے اسے قطع رحمی کرتے ہیں، زمین میں فساد پھیلاتے ہیں، یہی لوگ ہیں جن کے لیے لعنت ہے اور ان کے لیے برا گھر ہے۔ [الرعد: 25] یعنی: محض لعنت اور برا گھر ہی نہیں بلکہ اس سے بھی بڑھ کر سزا ہے جو کہ قطع رحمی کرنے والوں کی منتظر ہے، ایسے لوگ اپنے آپ کو آخرت میں صلہ رحمی کے اجر سے بھی محروم کرتے ہیں اور دنیا میں صلہ رحمی کی بدولت ملنے والے فائدے سے بھی دور رہتے ہیں کیونکہ صلہ رحمی سے عمر میں اضافہ ہوتا ہے اور رزق میں وسعت آتی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (جس شخص کو اچھا لگے کہ اس کے رزق میں فراخی ڈال دی جائے اور اس کی عمر لمبی کر دی جائے تو وہ صلہ رحمی کرے۔) اس حدیث کو بخاری: (5986) اور مسلم: (2557) نے روایت کیا ہے۔

اسی طرح سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (یقیناً: اللہ تعالی نے مخلوق کو پیدا کیا، یہاں تک کہ جب ان کی تخلیق سے فارغ ہو گیا تو رشتہ داری کھڑی ہوئی اور کہنے لگی: یہ جگہ قطع رحمی سے تیری پناہ پکڑنے والے کی ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا: ہاں ، ٹھیک ہے، کیا تو اس بات پر راضی نہیں کہ میں اسے ملاؤں گا جو تجھے ملائے گا، اور میں اسے توڑ دوں گا جو تجھے توڑے گا۔ تو رشتہ داری نے کہا: بالکل ٹھیک ہے۔ تو اللہ تعالی نے فرمایا: تمہارے لیے یہ بات پکی ہو گئی۔) پھر اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تم چاہو تو اللہ تعالی کے اس فرمان کو پڑھ لو: فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ تَوَلَّيْتُمْ أَنْ تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ (22) أُولَئِكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فَأَصَمَّهُمْ وَأَعْمَى أَبْصَارَهُمْ ترجمہ: پھر یقیناً تم سے کیا بعید ہے کہ اگر تمہیں کوئی اختیار دے دیا جائے تو زمین پر فساد کرنے لگو اور قطع رحمی کرنے لگو، [22] یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی ، انہیں بہرا کر دیا اور ان کی آنکھوں کو اندھا کر دیا۔ [محمد: 22- 23] ) صحیح مسلم مع شرح نووی: (16/112)

جب ہمیں یہ تفصیل سمجھ میں آ گئی تو اب ہم پوچھتے ہیں کہ صلہ رحمی کرنے والا کسے کہتے ہیں؟ تو یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے اس فرمان میں ہمیں سمجھائی کہ: (صلہ رحمی کرنے والا شخص وہ نہیں ہے جو بدلے میں صلہ رحمی کرے، لیکن حقیقی صلہ رحمی کرنے والا شخص تو وہ ہے جو قطع رحمی پر بھی صلہ رحمی کرے۔) بخاری: (5645)

چنانچہ اگر صلہ رحمی میں محض اچھائی کا بدلہ اچھائی سے ہو، کسی کی قطع رحمی پر اچھائی نہ کی جائے تو یہ صلہ رحمی نہیں ہے، یہ تو بس ادلے کا بدلہ ہے، کچھ لوگوں کے ہاں یہ اصول ہوتا ہے کہ کوئی تحفہ دے گا تو ہم تحفہ دیں گے، اور اگر کوئی تحفہ نہیں دے گا تو ہم بھی تحفہ نہیں دیں گے۔ ایسے ہی جو ہمارے ہاں آئے گا ہم اس کے ہاں جائیں گے، جو ہمارے ہاں نہیں آئے گا ہم بھی اس کے ہاں نہیں جائیں گے اس سے قطع تعلقی ہو گی۔ تو یہ وتیرہ کبھی بھی صلہ رحمی نہیں کہلائے گا، نہ ہی یہ شریعت کا مطلوب عمل ہے، یہاں تو بس ادلے کا بدلہ دیا جا رہا ہے، تو یہ وہ مقام نہیں ہے جس تک پہنچنے کی شریعت نے ترغیب دلائی ہو۔ جیسے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا : (میرے کچھ رشتہ دار ہیں ، میں ان کے ساتھ صلہ رحمی کرتا ہوں وہ مجھ سے قطع رحمی کرتے ہیں، میں ان کے ساتھ حسن سلوک کرتا ہوں اور وہ میرے ساتھ بد سلوکی کرتے ہیں، میں ان کے ساتھ بردباری والا معاملہ کرتا ہوں لیکن وہ میرے ساتھ جاہلوں والا طریقہ اپناتے ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اگر ایسے ہی ہے جیسے تم نے کہا: تو تم انہیں گرم راکھ کھلا رہے ہو، آپ جس وقت تک ایسے ہی رہو گے تو ہمیشہ اللہ تعالی کی طرف سے آپ کے لیے مدد گار متعین رہے گا۔) مسلم مع شرح نووی: (16/ 115)

کوئی ہے جو گرم راکھ منہ میں لے؟ اللہ تعالی ہم سب کو قطع رحمی سے محفوظ فرمائے۔

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد