الحمد للہ.
عبادت كى لغوى تعريف:
لغت ميں عبادت عاجزى و انكسارى اور تابعدارى كو كہتے ہيں، عرب كا قول ہے: ھذا الطريق معبد" يعنى زيادہ چلنے اور پاؤں سے زيادہ روندھا ہوا.
ليكن شرعى اصطلاح ميں عبادت كا اطلاق دو چيزوں پر ہوتا ہے:
اول:
بندے كا فعل جيسے كوئى شخص نماز ادا كرے يا زكاۃ ادا كرے تو اس كا يہ فعل عبادت كہلائے گا، علماء كرام نے اس كى تعريف اس طرح كى ہے:
اللہ تعالى كى محبت ركھتے ہوئے اور اس كا خوف اور اس سے ثواب كى اميد ركھتے ہوئے كوئى فعل كر كے اللہ تعالى كى اطاعت كى جائے يا اس كا حكم مانا جائے اور اس كے منع كردہ كام سے ركا جائے.
دوم:
جس كام كا حكم ديا گيا ہے وہ كام عبادت ہے اگرچہ اسے كوئي بھى ادا نہ كرتا ہو جيسے كہ نماز اور زكاۃ ذاتى طور پر ايك عبادت ہيں، علماء كرام نے اس كى تعريف اس طرح كى ہے:
عبادت ايسا جامع اسم ہے جو ہر چيز جسے اللہ تعالى پسند كرے اور اس پر راضى ہو چاہے وہ اقوال ہوں يا افعال ظاہرى ہوں يا باطنى.
ان مامورات كو عبادت كا نام اس ليے ديا گيا ہے كيونكہ مكلف اشخاص ان افعال كو عاجزى و انكسارى كے ساتھ اپنے پروردگار كے ليے ادا كرتے ہيں، لھذا اللہ تعالى كى عبادت كرتے وقت اس كى كمال محبت اور اللہ سبحانہ وتعالى كے سامنے مكمل عاجزى و انكسارى كا ہونا ضرورى ہے .
اور اللہ سبحانہ وتعالى نے جن و انس كى پيدائش كا مقصد يہ بيان فرمايا ہے كہ وہ صرف اور صرف اس وحدہ لا شريك كى عبادت كريں، اس مقصد كو بيان كرتے ہوئے ارشاد فرمايا :
اور ميں نے تو جن و انس كو صرف اور صرف اپنى عبادت كے ليے ہى پيدا فرمايا ہے الذاريات ( 56 ).
لھذا ہم اس غرض و غايت اور اس ھدف تك كيسے پہنچيں گے؟
بہت سے لوگ يہ خيال كرتے ہيں كہ عبادت اس سے آگے نہيں كہ صرف كچھ اسلامى شعائر كے مجموعہ پر عمل پيرا ہو جائيں جن كا حكم اللہ تعالى نے ہميں دے ركھا ہے مثلا نماز، روزہ ، حج اور زكاۃ وغيرہ اس كے اوقات ميں ادا كر ديا جائے تو اسى كو عبادت كہتے ہيں، حالانكہ معاملہ ايسا نہيں جس طرح ان لوگوں نے خيال كر ركھا ہے.
لھذا ان اسلامى شعائر اور عبادات كےكاموں ميں دن اور رات كا كتنا حصہ صرف ہوتا ہے؟ بلكہ انسان كى عمر كا كتنا حصہ صرف ہوتا ہے؟
اور پھر اس طرح باقى عمر كہاں؟ اور بقيہ طاقت كہاں؟ اور باقى وقت كہاں صرف ہوا؟ يہ سب كچھ كہاں صرف ہوتا اور كہاں جاتا ہے؟
كيا عبادت ميں صرف ہوتا ہے يا پھر كسى اور چيز ميں ؟ اگر تو عبادت كے علاوہ كہيں اور صرف ہوتا ہے تو پھر انسانى وجود كى غرض و غايت كس طرح ثابت ہو سكتى ہے جو اس آيت ميں بيان ہوئى ہے كہ يہ مكمل اور صرف اللہ تعالى كى عبادت كے ليے ہے؟
اور پھر اللہ تعالى كا يہ فرمان كس طرح ثابت ہو گا؟
كہہ ديجئے كہ ميرى نماز اور ميرى قربانى اور ميرى زندگى اور ميرى موت سب كچھ اللہ رب العالمين كے ليے ہے الانعام ( 162 ).
بلا شبہ عبوديت ايك ايسا قضيہ اور معاملہ ہے جو مسلمان كى مكمل زندگى كو شامل ہے، لھذا جب وہ رزق كى تلاش ميں روئے زمين ميں گھومتا پھرتا ہے تو يہ رزق كى تلاش اور اس كا گھومنا بھى عبادت ہے كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى نے اسے اس كا حكم مندرجہ ذيل فرمان ميں ديا ہے:
ارشاد بارى تعالى ہے:
تم اس كى راہوں ميں چلتے پھرتے رہو اور اللہ كى روزياں كھاؤ اور اسى كى طرف تمہيں جى كر دوبارہ اٹھنا ہے الملك ( 15 ).
اور جب مسلمان شخص نيند كرتا اور سوتا ہے تو اس ليے كہ اللہ تعالى كى عبادت كے ليے اپنى طاقت بحال كر سكے جيسا كہ معاذ بن جبل رضي اللہ تعالى عنہ كا كہنا ہے:
" ميں اپنى نيند ميں بھى اسى طرح اجروثواب كے حصول كى نيت كرتا ہوں جس طرح اپنے بيدار ہونے ميں اجروثواب كى نيت ركھتا ہوں" صحيح بخارى حديث نمبر ( 4342 ).
يعنى جس طرح قيام الليل ميں اجروثواب كى نيت كرتے اسى طرح نيند ميں بھى اجروثواب كے حصول كى نيت كرتے تھے، بلكہ مسلمان شخص تو اس كے علاوہ كسى بات پر راضى ہى نہيں ہو سكتا كہ اس كے نكاح اور كھانے پينے اور نفع حاصل كرنا يہ سب كچھ اس كى حسنات اور نيكيوں ميں شامل ہوں، جيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا نے بھى فرمايا:
" اور تمہارے ہر ايك كے ٹكڑے ميں صدقہ ہے ، تو صحابہ كرام نے عرض كي: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كيا جب كوئى ہم ميں سے اپنى شہوت پورى كرتا ہے تو اس ميں اس كے ليے اجر بھى ہے؟ تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اچھا تم مجھے يہ بتاؤ كہ اگر اسے حرام كام ميں استعمال كرے تو كيا اسے گناہ ہو گا؟
تو صحابہ كرام نے عرض كيا: جى ہاں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
تو اسى طرح اگر وہ حلال كام ميں استعمال كرے تو اسے اجرو ثواب ملے گا"صحيح مسلم حديث نمبر ( 1006 ) .
اور اس عظيم مرتبہ تك پہنچنے كى راہ يہ ہے كہ بندہ اپنے رب اور پروردگار كو ہر حال ميں اپنے سامنے ركھے اور زندگى ميں وہ جو كام بھى سر انجام دے رہا ہو تو اسے يہ سمجھنا اور اسے يقين ہونا چاہئے كہ اس كا رب اسے ديكھ رہا ہے آيا وہ يہ كام پسند بھى كرتا ہے اور اس سے راضى ہو گا يا ناراض ؟ لھذا اگر وہ كام اللہ تعالى كو راضى كرنے والا ہے اور اسے پسند ہے تو مسلمان كو اس كام پر اللہ تعالى كا شكر اور اس كى تعريف كرنى چاہيے اور خير وبھلائى كے كاموں ميں بڑھـ چڑھـ كر حصہ لے اور زيادہ كام كرے.
اور اگر وہ كام اللہ تعالى كى رضا و خوشنودى والا نہيں تو پھر اسے توبہ اور استغفار كرنى چاہيے جيسا كہ متقى اور پرہيز گاروں كا شيوہ اور طريقہ ہے جن كى صفت بيان كرتے ہوئے اللہ تعالى نے فرمايا:
اور وہ لوگ جب كوئي برائى اور فحش كام كا ارتكاب كر ليتے ہيں يا پھر اپنے آپ پر ظلم كر بيٹھتے ہيں تو اللہ تعالى كا ذكر كرتے اور اپنے گناہوں كى بخشش مانگتے ہيں اور اللہ تعالى كے علاوہ كوئى گناہوں كو معاف كرنے والا نہيں ہے، اور انہوں نے جو كچھ كيا ہے اس پر وہ اصرار نہيں كرتے اور انہيں علم ہوتا ہے، يہى لوگ ہيں جن كا بدلہ ان كے رب كى جانب سے مغفرت اور بخشش اور ايسى جنتيں ہيں جن كے نيچے سے نہريں جارى ہيں وہ اس ميں ہميشہ ہميشہ رہيں گے، اور عمل كرنے والوں كا يہ بہت ہى اچھا بدلہ اور اجروثواب ہے آل عمران ( 135- 136 ).
ہمارے اسلاف صحابہ كرام رضوان اللہ عليہم اجمعين اور ان كے بعد ميں آنے والوں كى حس ميں عبادت اسى طرح تھى انہوں نے كبھى بھى تعبدى شعائر كے دائرے ميں اس عبادت كو محصور كر كے نہيں ركھا تھا كہ ان لحظات جن ميں وہ ان دينى پر شعائر كو سرانجام ديتے صرفانہيں ہى عبادت گردانيں اور يہى لحظات عبادت كے ہوں، اور ان كى زندگى كے باقى اوقات عبادت سے خارج ہوں، ايسا نہيں تھا بلكہ ان ميں سے ہر ايك كى مكمل زندگى عبادت تھى، يہ دينى شعائر تو ايسے خاص لحظات ہيں كہ ان كى ادائيگى كے لحظات و اوقات ميں انسان كى ايمانى طاقت ميں اضافہ ہوتا ہے جو اس سے باقى مطلوبہ عبادات كى ادائيگى ميں ممد و معاون ثابت ہوتے ہيں.
اور اسى ليے وہ اس كا خاص اہمتام كرتے اور خيال ركھتے تھے جس طرح ايك مسافر اپنے زاد راہ كا خيال كرتا ہے جو اس كے سفر ميں ممد و معان ثابت ہو اور اس لحظے كا خاص كر خيال كرتا ہے جس ميں اسے يہ زاد راہ ملنا ہو.
وہ حقيقتا ايسے ہى تھے جس طرح ان كے رب نے ان كى صفات بيان كرتے ہوئے فرمايا:
وہ اٹھتے بيٹھتے اور اپنے پہلؤں كے بل بھى اللہ تعالى كا ذكر كرتے ہيں آل عمران ( 191 ) .
يعنى وہ اپنى ہر حالت ميں اپنى زبان كو اللہ تعالى كے ذكر سے تر ركھتے تھے اور اس كےساتھ دل كو بھى جمع كرتے اور ذكر كرتے ہوئے اللہ تعالى كى خشيت اور اس كا ڈر اورخوف ہر وقت ان كے دل ميں حاضر اور موجود رہتا جب بھى كوئى عمل كرتے وہ اس خوف اور ڈر كو اپنے دل ميں ركھتے، يا پھر كوئى بات بھى كرتے تو پھر بھى اللہ تعالى كى عظمت ان كے دل ميں ہوتى اور خوف چھايا رہتا تھا، لھذا ان ميں سے جب كوئى غافل ہو جاتا يا غلطى كر بيٹھتا تو ان كا حال بالكل ايسا ہى ہوتا جيسا كہ اللہ تعالى نے مندرجہ بالا سورۃ آل عمران كى آيات ميں بيان فرمايا ہے .
اللہ تعالى آپ كو توفيق سے نوازے آپ يہ علم ميں ركھيں كہ ہر انسان اپنى فطرت كے ساتھ عبادت كرتا ہے، يعنى وہ فطرتى طور پر عبادت كے ليے ہى پيدا ہوا ہے يا تو وہ بغير كسى شريك كے صرف اللہ تعالى ہى كى عبادت كرتا ہے يا پھر اللہ تعالى كے علاوہ كسى اور كى عبادت كرنے لگ جاتا ہے، لھذا اللہ تعالى كے ساتھ كسى اور شريك كرنے والا اور اللہ كے علاوہ كسى اور كى عبادت كرنے والا دونوں ہى برابر ہيں! اور اللہ تعالى نے اس عبادت كو" شيطان كى عبادت " كا نام ديا ہے، كيونكہ اس نے شيطان كى دعوت كو قبول كرتے ہوئے اس كى بات پر لبيك كہا ہے.
فرمان بارى تعالى ہے:
اے آدم كى اولاد كيا ميں نے تم سے يہ عہد نہيں ليا كہ تم شيطان كى عبادت نہ كرنا بلا شبہ وہ تمہارا كھلا اور واضح دشمن ہے، اور تم صرف ميرى ہى عبادت كرو يہى سيدھا راہ ہے يس ( 60 ).
اور صرف اللہ تعالى كى عبادت كرنے والے اور شيطان كى عبادت كرنے والے شخص كى زندگى برابر نہيں ہو سكتى:
فرمان بارى تعالى ہے:
اچھا وہ شخص زيادہ ہدايت والا ہے جو اپنے چہرے كے بل اوندھا ہو كر چلے يا وہ جو سيدھا ( پاؤں كے بل ) راہ راست پر چل رہا ہو الملك ( 22 ).
اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:
كہہ ديجئے كيا نابينا اور آنكھوں والا برابر ہو سكتا ہے ؟ يا كيا اندھيرے اور روشنى برابر ہو سكتى ہيں؟ الرعد ( 16 ).
اور شيطان تو انسان كو اللہ تعالى كى عبادت سے دور كرنے كے ليے بہت سے حيلے اور كوششيں كرتا ہے اور اس ميں بتدريج اسے دور كرنے كى كوشش كرتا ہے، بعض اوقات تو اسے عبادت سے وقتى طور پر دور كرتا ہے جيسا كہ كوئى شخص معصيت اور گناہ كا مرتكب ہو تا ہے، اسى كے بارہ ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جب زانى زنا كرتا ہے تو وہ مومن نہيں ہوتا، اور چور جب چورى كرتا ہے تو وہ مومن نہيں ہوتا... " صحيح بخارى حديث نمبر ( 2475 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 57 ) .
اور بعض اوقات شيطان اسے مكمل طور پر عبادت سے دور كرديتا ہے اور اللہ تعالى اور بندے كے مابين جو تعلق ہوتا ہے اسے ختم كر كے ركھ ديتا ہے تو بندہ اللہ تعالى كے ساتھ شرك يا پھر كفر اور الحاد كا ارتكاب كرنا شروع كرديتا ہے، اللہ تعالى اس سے بچا كر ركھے.
اور شيطان كى يہ عبادت بعض اوقات تو خواہشات كى پيروى ہوتى ہے جيسا كہ اللہ سبحانہ وتعالى نے فرمايا:
كيا آپ نے اسے بھى ديكھا جو اپنى خواہش نفس كو اپنا الہ اور معبود بنائے ہوئے ہے، كيا آپ اس كے ذمہ دار ہو سكتے ہيں؟ الفرقان ( 43 ).
لھذا يہ شخص جو اپنى خواہش كے حكم كو مانتا اور اس پر عمل كرتا ہے جسے وہ اچھا اور بہتر ديكھتا ہے اس پر عمل پيرا ہو جاتا اور جسے اپنى رائے ميں قبيح اور غلط خيال كرے اس ترك كرديتا ہے، لھذا وہ اپنے نفس كى خواہشات كے پيچھے چلتا اور اس كا مطيع بن چكا ہے، وہ اسى چيز كى پيروى كرتا ہے جس كا حكم اس كا نفس دے گويا كہ وہ اس كى اس طرح عبادت كرتا ہے جس طرح ايك شخص اپنے الہ اورمعبود كى عبادت كرے.
اور بعض اوقات روپے پيسے اور درہم و دينار كى عبادت ہوتى ہے جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" دينار اور درہم اور قميص و لباس كا بندہ تباہ وبرباد ہو جائے اگر تو اسے كچھ دے ديا جائے تو وہ خوش اور راضى ہوتا ہے اور اگر اسے كچھ نہ ملے تو ناراض ہوتا ہے، تباہ برباد اور ہلاك ہو، اور جب اسے كانٹا چبھے تو اس كا كانٹا بھى نہ نكالا جائے...." الحديث .صحيح بخارى حديث نمبر ( 2887 ).
اور اسى طرح ہر وہ شخص جس كا دل اللہ تعالى كے علاوہ دوسرى اشياء اور نفس كى خواہشات سے معلق ہو چكا ہو اور ان سے محبت كرنے لگے اگر وہ خواہشات اسے حاصل ہو جائيں تو وہ راضى ہو جاتا ہے اور اگر ان كا حصول نہ ہو تو ناراض ہوتا ہے، لھذا ايسا شخص خواہشات كا بندہ اور غلام بن چكا ہے، كيونكہ حقيقى غلامى اور بندگى تو دل كى غلامى اور اس كى عبوديت ہے .
پھر جس قدر ان خواہشات كے پيچھے چلے اور ان كى عبادت كرے گا يا بعض خواہشات كو مانے گا اس قدر ہى اس كى اللہ تعالى كے ليے عبوديت اور بندگى بھى كمزور ہو گى، اور اگر اس كى ان خواہشات اور شہوات كى عبوديت مستحكم ہو حتى كہ اسے كليتا ہى دين سے روك دے تو وہ شخص مشرك اور كافر ہے، اور اگر يہ خواہشات اور شہوات اسے بعض واجبات اور فرائض سے روك ديں يا پھر بعض حرام كاموں كو اس كے مزين كر كے پيش كريں جن كا مرتكب دين اسلام سے خارج تو نہيں ہوتا ليكن اپنے رب كے ساتھ عبوديت اور بندگى ميں نقص ضرور پيدا ہوتا ہے اور يہ نقص اس قدر ہى ہو گا جس قدر اس سے ركے گا.
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ ہم پر احسان كرتے ہوئے ہميں مكمل طور پر اپنى ہى بندگى كرنے كى توفيق سے نوازے اور اپنے مخلص اور نيك و صالح اور اولياء اور مقرب بندوں ميں سے بنائے، بلا شبہ وہ سننے والا اور دعا كو قبول كرنے والا ہے.
اللہ تعالى ہى زيادہ جاننے والا اور بہتر فيصلے كرنے والا ہے.
اللہ تعالى اپنے اور نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے.
اس كى مزيد تفصيل كے ليے مندرجہ ذيل كتابوں كا مطالعہ ضرور كريں.
مفاہيم ينبغى ان تصحح تاليف: محمد قطب ( 20- 23 ، 174-182 ) اور العبوديۃ تاليف: شيخ الاسلام ابن تيميہ .
واللہ اعلم