الحمد للہ.
1 - اللہ سبحانہ و تعالى نے اپنے اولياء كى وصف بيان كرتے ہوئے دو وصف ايمان اور تقوى بيان كيے ہيں:
فرمان بارى تعالى ہے:
يقين جانو اللہ كے اولياء پر كوئى خوف نہيں اور نہ ہى وہ غمگين ہوتے ہيں، يہ وہ لوگ ہيں جو ايمان لائے اور تقوى اختيار كرتے ہيں يونس ( 62 - 63 ).
اس ليے جو مومن اور متقى ہو گا وہ اللہ كا ولى ہے.
2 - اور پھر اللہ كے ولى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے طريقہ اور فرامين كى مخالفت نہيں كرتے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے دين ميں بدعات كى ايجاد سے منع كيا اور ايسا كرنے سے بچنے كا حكم ديا ہے، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے اپنا دين مكمل كر ديا اور اپنے بندوں پر اپنى نعمت كى تكميل كر دى ہے.
فرمان بارى تعالى ہے:
آج ميں نے تمہارے ليے تمہارا دين مكمل كر ديا ہے، اور تم پر اپنى نعمت بھرپور كر دى اور تمہارے ليے اسلام كے دين ہونے پر راضى ہو گيا المآئدۃ ( 3 ).
اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جس كسى نے بھى ہمارے اس دين ميں وہ كچھ ايجاد كيا جو اس ميں سے نہيں تو وہ مردود ہے "
3 - اس بنا پر آپ اللہ كے ولى اور شيطان كے ولى و دوست كے مابين تميز و فرق كر سكتے ہيں، وہ اس طرح كہ آپ اس كى اخلاقى اور دينى حالت ديكھيں كہ وہ دين كا كتنا التزام كرتا ہے آيا وہ نماز پنجگانہ جماعت كے ساتھ مسجد ميں ادا كرتا ہے يا نہيں، اور كيا لوگوں كا ناحق مال تو نہيں كھاتا، اور كيا كہيں وہ شريعت ميں كمى يا زيادتى كر كے حد سے تجاوز تو نہيں كرتا.
4 - كوئى ايسا ورد يا ذكر اپنى طرف سے ايجاد كرنا جائز نہيں جس كا مسلمان پابند ہو يا پھر كسى دوسرے كو اس كى پابندى كرنے كا كہے ـ مثلا مختلف وظيفہ جات اور دعائيں و ورد ـ بلكہ جو صحيح سنت نبويہ ميں وارد ہيں وہى دعائيں اور ورد و ظيفے كافى ہيں، وگرنہ ايسا كرنے والا شخص يا تو خود بدعتى ہو گيا يا پھر بدعت كى طرف دعوت دينے والا، اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جس نے بھى ہمارے اس دين ميں كوئى نيا كام ايجاد كيا جو اس ميں سے نہيں تو وہ مردود ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2550 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1718 ).
اور صحيح مسلم كى ايك روايت ميں ہے:
" جس كسى نے بھى كوئى ايسا عمل كيا جس پر ہمارا حكم نہيں تو وہ مردود ہے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1718 ).
ابن رجب حنبلى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" يہ حديث دين اسلام كے عظيم اصولوں ميں ايك اصول ہے، اور يہ ظاہرى طور پر اعمال كے ليے كسوٹى اور ترازو ہے، جس طرح حديث " انما الاعمال بالنيات " اعمال كے باطن كے ليے كسوٹى ہے اسى طرح يہ ظاہرى كسوٹى ہے، اور پھر جس طرح ہر وہ عمل جو اللہ كے ليے نہ كيا جائے اس كا عمل كرنے والے كو كوئى اجروثواب حاصل نہيں ہوتا، اسى طرح ہر وہ عمل جس پر اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كا حكم نہ ہو تو وہ عمل مردود ہے.
اور جس نے بھى كوئى ايسا كام دين ميں ايجاد كر ليا جس كى اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم نے اجازت اور حكم نہيں ديا تو اس كا دين سے كوئى تعلق نہيں " اھـ
ديكھيں: جامع العلوم و الحكم ( 1 / 180 ).
اور امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" يہ حديث دين اسلام كے قواعد ميں سے ايك عظيم قاعدہ ہے، اور يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے جوامع الكلم ميں شامل ہوتا ہے؛ كيونكہ يہ بدعات اور ايجادات دين كے رد ميں صريح ہے، اور دوسرى روايت ميں اور الفاظ وارد ہيں: وہ اس ليے كہ ہو سكتا ہے كوئى بدعتى شخص جو پہلے سے ايجاد بدعت پر عمل كر رہا ہے جب اس كو يہ پہلى حديث دليل دى جائے كہ:" جو كوئى بھى بدعت ايجاد كرے " تو وہ جواب ديتا ہے ميں نے تو كچھ بھى نئى چيز ايجاد نہيں كى، تو اس كے ليے يہ دوسرى روايت كے الفاظ بطور دليل پيش كئے جائينگے:
" جس كسى نے بھى كوئى ايسا عمل كيا " اس حديث ميں صراحت ہے كہ ہر بدعت چاہے وہ اس نے خود ايجاد كى ہو يا پہلے سے ايجاد كردہ پر عمل كر رہا ہو مردود ہے...
اس حديث كو ياد و حفظ كرنا بہت ضرورى ہے تا كہ منكرات و بدعا تكو ختم اور باطل قرار دينے كے ليے اس سے استدلال كيا جا سكے " اھـ
ديكھيں: شرح مسلم نووى ( 12 / 16 ).
5 - شيخ الاسلام رحمہ اللہ كہتے ہيں:
بلاشك و شبہ اذكار اور دعائيں افضل ترين عبادات ہيں جو توقيف اور اتباع پر مبنى ہيں، نہ كہ خواہش و ابتداع و بدعات پر، اس ليے نبوى دعائيں اور اذكار ہى سب سے بہتر اور افضل ہيں جو ذكر و دعا كرنے والے كے ليے بہتر ہيں، اور ان پر چلنے والا ہى امن و سلامتى كى راہ پر ہے.
ان سے جو فوائد و نتائج حاصل ہوتے ہيں اس كى تعبير كوئى زبان نہيں كر سكتى، اور نہ ہى كوئى انسان اس كا احاطہ كر سكتا ہے، اس كے علاوہ جو اذكار ہيں وہ حرام بھى ہو سكتے ہيں اور بسا اوقات مكروہ بھى، اور بعض اوقات ان ميں شرك بھى ہو سكتا ہے جو اكثر لوگوں كو معلوم نہيں، اجمالى طور پر يہى ہے اس كى تفصيل ميں جائيں تو طوالت اختيار كر جائيگا.
اور پھر كسى كے ليے جائز نہيں كہ وہ لوگوں كے ليے كسى بھى قسم كا ورد اور وظيفہ اور دعا مقرر كرے يا اسے مسنون قرار دے جو مسنون نہيں اور حديث ميں وارد نہيں ہے، اور وہ اسے مؤكدہ قرار دے كہ لوگ اس كا التزام كرنے لگيں، جس طرح وہ نمازوں كا التزام كرتے ہيں، بلكہ يہ ايسى بدعت ہو گى جس كى اللہ نے اجازت ہى نہيں دى..
اور رہا مسئلہ غير شرعى ورد و ظيفہ اور ذكر اختيار كرنے كا تو اس سے منع كيا گيا ہے، اس كے ساتھ يہ كہ شرعى دعاؤں اور اذكار ميں انتہائى صحيح مطلب اور مقصد پايا جاتا ہے، اسے چھوڑ كر كسى بناوٹى اور بدعتى وظيفہ جات كو توصرف جاہل شخص ہى اپناتا ہے يا پھر وہ جو حد سے تجاوز كرنے والا يا كوتاہى كرنے والا " اھـ
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 22 / 510 - 511 ).
واللہ اعلم .