جمعرات 20 جمادی اولی 1446 - 21 نومبر 2024
اردو

ساس اورسسر کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی

7653

تاریخ اشاعت : 28-04-2004

مشاہدات : 17592

سوال

میں سات برس سے خاوند کے گھر والوں کے ساتھ رہ رہي ہوں ، اوراپنے سسر کے ساتھ میں موافقت نہیں کرسکی جس کی بنا پر میں نے خاوند سے مطالبہ کیا ہے کہ ہم اس فلیٹ سے کہیں اورمنتقل ہوجائيں اسے یہ بات بہت ناگوار گزرتی ہے ، اوروہ کہتا ہے کہ میں والدین کے بغیر نہیں رہ سکتا ، اورمیں بھی ساس اورسسر اوردیور کے ساتھ نہیں رہ سکتی توکیا میرا یہ مطالبہ بہت بڑا ہے ؟
اوراسلام اس معاملہ میں کیا کہتا ہے مجھے جتنی جلدی ہوسکے جواب ارسال کریں ، میں برداشت نہیں کرسکتی ، اوریہ چاہتی ہوں کہ خاوند میرے ساتھ ایک سعادت کی زندگی بسر کرسکے ۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول :

پہلی بات تو یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خاوند کے اقربا ورشتہ دار اجنبی مردوں کوبیوی کے پاس جانے سے منع فرمایا ہے جیسا کہ مندرجہ ذيل حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

عقبہ بن عامررضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( تم عورتوں کے پاس جانے سے بچو ، توایک انصاری شخص کہتے لگا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ذرا خاوند کے بھائی ( یعنی دیور ) کے بارہ میں بتائيں ؟

تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : دیور تو موت ہے ) صحیح بخاری حدیث نمبر( 4934 ) صحیح مسلم حديث نمبر ( 2172 ) ۔

لھذا کسی بھی دیور کے ساتھ خلوت جائز نہیں ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ وہ اتنے چھوٹے ہوں جن سے کوئي خطرہ نہ ہو اوران پر کوئي خطرہ ہو ۔

دوم :

دوسری بات یہ ہے کہ خاوند پر واجب ہے کہ وہ بیوی کے لیے ایسی رہائش مہیا کرے جواسے لوگوں کی آنکھوں اوربارش گرمی وسردی وغیرہ سے بچائے ، اوروہ اس میں مستقل طریقے سے رہے جواس کی ضرورت کوپورا کرتی ہو مثلا ایک کمرہ اورباورچی خانہ اورلیٹرین ہی کیوں نہ ہو ۔

لیکن اگر عقد نکاح کے وقت اگربیوی نے اس سے بڑی رہائيش کی شرط رکھی ہوتو اوربات ہے اوراسے پورا کرنا ضروری ہوگا ، اورخاوند کویہ نہيں چاہیے کہ وہ بیوی پر لازم کرے کہ وہ اپنے کسی دیور کےساتھ مل کرکھائے ۔

خاوند کوچاہیے کہ وہ اپنی استطاعت اورطاقت کے مطابق بیوی کے لیے رہائيش تیار کرے جو کہ عرف اورمعاشرہ کی عادات اورمعیار کے مطابق ہو ۔

ا – حافظ ابن حزم رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :

خاوند پر ضروری ہے کہ بیوی کواپنی استطاعت اورقدرت کےمطابق رہائیش دے اس لیے کہ اللہ تعالی کافرمان ہے :

تم انہیں اپنی طاقت کے مطابق وہاں رہائش پزیر کرو جہاں خود رہتے ہو الطلاق ( 6 ) ۔

ب – ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

خاوند پر بیوی کے لیے رہائش کا انتظام کرنا واجب ہے ، اس کی دلیل فرمان باری تعالی ہے :

تم انہیں اپنی طاقت کے مطابق وہاں رہائش پزیر کرو جہاں خود رہتے ہو الطلاق ( 6 ) ۔

توجب مطلقہ یعنی طلاق والی عورت کےلیے رہائیش ثابت ہے توپھر جونکاح میں ہے اس کے لیے تو بالاولی واجب ہوگي ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے :

اوران کے ساتھ اچھے اوربہتر انداز میں بود وباش اختیار کرو ۔

اوریہ بات معروف ہے کہ اسے رہائش میں رکھا جائے گا ، اوراس لیے بھی کہ وہ رہائش کے بغیر نہیں رہ سکتی تا کہ لوگوں کی نظروں سے اسے چھپایا جاسکے ، اورپھر اس کے ساتھ تصرف کرنے اور اس سے استمتاع کرنے اورمال ومتاع کی حفاظت کےلیے بھی رہائش کی ضرورت ہے جس کے بغیر کوئي چارہ نہیں ۔ اھـ

دیکھیں المغنی لابن قدامہ المقدسی ( 9 / 237 ) ۔

ج – کاسانی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

اوراگر خاونداپنی بیوی کو اس کی سوکن کے ساتھ رکھنا چاہے یا پھر اپنے کسی رشتہ دار مثلا اپنی والدہ ، بہن ، یا دوسری بیوی کی بیٹی اوریا کسی اوررشتہ دار کے ساتھ ، اوربیوی ان کے ساتھ رہنے سے انکار کردے توخاوند پر ضروری ہے کہ وہ اسے علیحدہ گھرمیں رکھے ۔

اوراگراسے وہ کسی بڑے سے گھر میں ان کے ساتھ رکھے جس میں اس کے لیے بالکل علیحدہ انتظام ہو جو اس کے لیے کافی ہو توپھو وہ علیحدہ مکان کا مطالبہ نہيں کرسکتی ، اس لیے کہ مال ومتاع اوراستمتاع کا عدم حصول زائل ہوچکا ہے اوریہ سب کچھ حاصل ہوسکتا ہے ۔ ا ھـ ۔

دیکھیں کتاب : بدائع الصنائع ( 4 / 23 ) ۔

د : ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالی کا یہ بھی کہنا ہے کہ :

خاوند کے لیے جائز نہيں کہ وہ دونوں بیویوں کوان کے مرضي کےبغیر ایک ہی گھر میں رہائش پزیر کرے چاہے وہ چھوٹی ہو یا بڑی اس لیے کہ ان دونوں پر ضرر ہے کیونکہ دونوں کی آپس میں غیرت اورعداوت ہے ، اوران دونوں کوایک ہی گھر میں اکٹھا کرنا اس کومخاصمت کواورابھارنا اورزيادہ کرنا ہے ۔

اورپھر یہ بھی ہے کہ جب وہ دونوں میں سے کسی ایک کے پاس رات گزارے گا تودوسری اس کی کھسر پھسر سنے گی یا پھر اسے دیکھے گی جس سے اس کی غیرت جوش مارے گي اورمخاصمت اوربڑھے گی ، لیکن اگر وہ ایک ہی گھر میں رہنے پر راضی ہوجائيں توپھر جائز ہے ، کیونکہ یہ ان کا حق ہے اوروہ اسے ترک بھی کرسکتی ہیں ۔ ا ھـ

دیکھیں المغنی لابن قدامہ المقدسی ( 8 / 137 ) ۔

ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالی کا یہ مقصد نہیں کہ ایک سے ہم بستری دوسری کے سامنے کی جائے اوریا پھر دوسری سب کچھ سنتی رہے ، بلکہ رحمہ اللہ تعالی کا مقصد تو یہ ہے کہ ایک ہی گھر میں ان کی رہائش کرنا جائز ہے ، وہ اس طرح کہ ایک ہی گھر میں ہرایک کی باری پر اس کے پاس جائے جہاں پر اسے دوسری نہ دیکھ رہی ہو ۔

اوراگر گھر میں ہر بیوی کوعلیحدہ علیحدہ سونے کا کمرہ اورباورچی خانہ اوربیت الخلاء وغیرہ تیار کردے تو یہ کافی ہے ، اوراسی طرح اگر ایک ہی گھر میں ہر ایک کے لیے مستقل فلیٹ یا پھر ایک ایک منزل بنادے یہ بھی کافی ہے ۔

احناف علماء میں سے حصکفی رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :

اوراسی طرح بیوی کے لیے رہائش کا انتظام کرنا واجب ہے جو کہ خاوند اوربیوی دونوں کے گھر والوں سے خالی ہو ، اوریہ سب کچھ ان کی حالت کے مطابق ہوگا جس میں کھانا پینا ، اورلباس وغیرہ کا انتظام ہو اوراس کا گھر علیحدہ ہونا چاہیے جس میں بیت الخلاء وغیرہ بھی ہونا ضروری ہے اوراس کے لیے ایک باورچی خانہ جوکہ اس کی ضروریات پوری کرسکے ۔ ا ھـ ۔

اورابن عابدین رحمہ اللہ تعالی اس پرتعلیق چڑھاتے ہوئے کہتے ہیں :

کنیف اورمطبخ سے بیت الخلاء اورباورچی خانہ ہے کہ وہ بھی گھر کے اندر ہوں ( یعنی اگرکمرہ ہے تواس میں یہ بھی شامل ہونا ضروری ہے ) یا پھرایسے گھرمیں ہوں جہاں پر کوئي اورشریک نہ ہو ۔ ا ھـ

دیکھیں الدر المختار ( 3 / 599 - 600 ) ۔

میرا یہ کہنا ہے کہ : کاسانی کے قول " گھر " سے مراد کمرہ پر یہ قول دلالت کرتا ہےکہ اوراگر گھرمیں کئي ایک کمرے ہوں تواس کے لیے وہ ایک کمرہ کوخالی کرے اوراسے بیوی کے لیے علیحدہ گھر بنائے ، ان کا کہنا ہے کہ : بیوی کے لیے جائز نہیں کہ وہ دوسرے گھر کام مطالبہ کرے ۔ ا ھـ

دیکھیں بدائع الصنائع ( 4 / 34 ) ۔

تواس بنا پرآپ کے خاوند کے لیے جا‏ئز ہے کہ وہ آپ کوگھر کے کسی کمرہ میں رہائش پزیر کرے جہاں پر فتنہ اوران بالغ مردوں سے جوآپ پرحرام ہیں کےساتھ خلوت وغیرہ کا خدشہ نہ ، اورخاوند کے لیے جائز نہيں کہ آپ کو گھرمیں باقی دوسرے لوگوں کے کام کرنے پر مجبور کرے ، یا پھریہ کہے کہ آپ ان کے ساتھ کھائيں پیئيں ۔

اوراگروہ استطاعت رکھتا ہوتوآپ کے لیے علیحدہ رہائش کا انتظام کرے تویہ آپ کے لیے اچھا اوربہتر ہے ، لیکن اگر آپ کی ساس اورسسر بوڑھے ہيں اوراپنے بیٹے کے محتاج ہیں اوران کی خدمت کرنے والا اس کے علاوہ اورکوئي نہیں اوران کی خدمت وہیں رہ کر کی جاسکتی ہے توپھر اس پر واجب ہے کہ وہ وہیں رہے ۔

اورآخر میں ہم اپنی مسلمان بہن سے گزارش کرتے ہيں کہ آپ صبر کریں اوراپنے خاوند کوراضی کرنےوالے اعمال میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیں اوراس کے والدین کی خدمت میں حتی الوسع تعاون کریں حتی کہ اللہ تعالی آسانی پیدا فرمادے ۔

اللہ تعالی ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے ، آمین یا رب العالمین ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد