جمعرات 25 جمادی ثانیہ 1446 - 26 دسمبر 2024
اردو

قرآن مجيد كامل ہے تو پھر حديث كى ضروت كيا ہے ؟

سوال

اگر قرآن مجيد كامل اور شريعت كے ليے پورا ہے تو پھر حديث كى كيا ضرورت ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

دشمان دين اسلام ابھى تك اللہ كى شريعت پر مختلف صورتوں اور اساليب كے ساتھ طعن و تشنيع كر رہے ہيں، اور دين اسلام كے بارہ ميں مسلمانوں ميں اپنے شبہات اور گمراہياں پھيلا رہے ہيں، اور بعض كمزور ايمان اور جاہل قسم كےمسلمان ان كے پيچھے چل نكلتے ہيں، اگر ان عام لوگوں ميں سے كوئى ايك بھى ذرا سا بھى غور و فكر كرے تو اسے معلوم ہو جائيگا كہ ان دشمان اسلام كے شبہات بالكل خالى ہيں، اور ان كى كوئى دليل نہيں ہے.

ايك عام شخص كے ليے اس شبہ كو رد كرنے كا آسان سا طريقہ يہ ہے كہ وہ اپنے آپ سے دريافت كرے: وہ ظہر كى كتنى ركعات ادا كرتا ہے، اور زكاۃ كا نصاب كيا ہے ؟

يہ آسان سے دو سوال ہيں جن سے كوئى ايك مسلمان بےپرواہ نہيں ہو سكتا اور ان دونوں كا جواب وہ كتاب اللہ ميں نہيں پائيگا، وہ يہ پائيگا كہ اللہ سبحانہ و تعالى نے اسے نماز اور زكاۃ كى ادائيگى كا حكم ديا ہے، تو وہ اللہ كے احكام كو بغير سنت نبويہ ديكھے كس طرح نافذ كر سكتا ہے ؟

ايسا كرنا محال اور ناممكن ہے، اسى ليے قرآن مجيد كے ليے سنت كى ضرورت حديث كے ليے قرآن كى ضرورت سے زيادہ ہے! جيسا كہ امام اوزاعى رحمہ اللہ كا كہنا ہے:

" كتاب اللہ كو سنت كے مقابلہ ميں سنت كى زيادہ ضرورت ہے، اور سنت كو كتاب اللہ كى كم "

ديكھيں: البحر المحيط للزركشى ( 6 / 11 ).

اور ابن مفلح نے اسے تابعى مكحول رحمہ اللہ سے بھى نقل كيا ہے.

ديكھيں: الآداب الشرعيۃ ( 2 / 307 ).

سائل كے بارہ ميں ہمارا گمان اچھا اور بہتر ہى ہے، ہمارے خيال ميں اس نے يہ سوال اس طرح كى باتيں كرنے والے كا رد كرنے كے ليے دريافت كيا ہے، تا كہ وہ اسے جواب دے سكے جو قرآن كريم كى تعظيم كا گمان ليے پھرتا ہے.

دوم:

جو شخص يہ گمان كرتا ہے كہ مسلمانوں كے ليے سنت نبويہ كى كوئى ضرورت نہيں بلكہ صرف قرآن مجيد ہى كافى ہے اس كا رد كرتے ہوئے يہ كہا جائيگا:

اس سے تو وہ اللہ تعالى كے فرمان كا رد كر رہا ہے جو كتاب عزيز ميں بہت سارى آيات ميں ہے كہ: نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم جو لائے ہيں اسے قبول كيا جائے، اور جس سے منع كريں اس سے ركا جائے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اطاعت و فرمانبردارى كى جائے ان آيات ميں درج ذيل آيات شامل ہيں:

فرمان بارى تعالى ہے:

اور رسول ( صلى اللہ عليہ وسلم ) تمہيں جو ديں اسے لے ليا كرو، اور جس سے منع كريں اس سے رك جاؤ، اور اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرو، يقينا اللہ تعالى سخت سزا دينے والا ہے الحشر ( 7 ).

كہہ ديجئے كہ اللہ تعالى كا حكم مانو، اور رسول اللہ كى اطاعت كرو، پھر بھى اگر تم نے روگردانى كى تو رسول كے ذمے تو صرف وہى ہے جو اس پر لازم كر ديا گيا ہے، اور تم پر اس كى جوابدہى ہے جو تم پر ركھا گيا ہے، ہدايت تو تمہيں اسى وقت ملےگى جب تم رسول اللہ كى اطاعت كروگے، اور رسول اللہ كے ذمہ تو صرف صاف صاف پہنچا دينا ہے النور ( 54 ).

اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:

اور ہم نے ہر رسول كو صرف اسى ليے بھيجا كہ اللہ كے حكم سے اس كى فرمانبردارى كى جائے النساء ( 64 ).

اور ايك مقام پر اللہ عزوجل كا ارشاد ہے:

تيرے رب كى قسم يہ اس وقت تك مومن ہى نہيں ہو سكتے جب تك كہ وہ آپس كے تمام اختلافات ميں آپ كو حاكم تسليم نہ كر ليں، پھر آپ جو ان ميں فيصلہ كر ديں اس كے متعلق اپنے دل ميں كسى طرح كى تنگى اور ناخوشى نہ پائيں اور فرمانبردارى كے ساتھ قبول كر ليں النساء ( 65 ).

قرآن مجيد ہى كافى ہے اور سنت كى كوئى ضرورت نہيں جيسا گما نركھنے والا شخص ان آيات كا كريگا ؟ اور ان آيات ميں موجود اللہ تعالى كے حكم كو كيسے بجا لائيگا ؟

اس كے علاوہ ہم نے ابتدا ميں اختصار كے ساتھ جو كہا تھا كہ اللہ تعالى نے اپنى كتاب عزيز ميں جس نماز كا حكم ديا ہے وہ اسے كس طرح ادا كريگا ؟ نمازوں كى تعداد كتنى ہے ؟ اور نماز كى شروط كيا ہيں ؟ اور نماز كن اشياء سے باطل ہو جاتى ہے ؟ اس كے اوقات كيا ہيں ؟

اور باقى عبادات مثلا نماز، حج اور روزہ اور باقى شعائر دين اور احكام ميں بھى آپ اسى طرح كہہ سكتے ہيں.

اور پھر وہ اللہ تعالى كے درج ذيل فرمان كى تطبيق اور تنفيذ كيسے كريگا ؟

فرمان بارى تعالى ہے:

چورى كرنے والے مرد اور چورى كرنے والى عورت كے ہاتھ كاٹ ديا كرو، يہ بدلہ ہے اس كا جو انہوں نے كيا، اللہ كى جانب سے، اور اللہ تعالى قوت و حكمت والا ہے المآئدۃ ( 38 ).

چورى كا نصاب كيا ہے جس ميں ہاتھ كاٹا جائيگا ؟

اور ہاتھ كہاں سے كاٹا جائيگا ؟

اور كيا داياں كاٹا جائيگا، يا كہ باياں ہاتھ ؟

اور پھر مسروقہ چيز ميں كيا شروط ہونگى ؟

اسى طرح آپ باقى حدود مثلا زنا اور تہمت و قذف اور لعان وغيرہ ميں كہہ سكتے ہيں.

بدر الدين الزركشى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

الرسالۃ ميں امام شافعى رحمہ اللہ كا قول ہے: " رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اطاعت و فرمانبردارى كى فرضيت كا باب "

اللہ تعالى كا فرمان ہے:

جس نے رسول ( صلى اللہ عليہ وسلم ) كى اطاعت كى اس نے اللہ كى اطاعت كى .

اور ہر وہ فريضہ جو اللہ نے اپنى كتاب عزيز ميں فرض كيا ہے مثلا حج اور نماز اور زكاۃ اگر اس كا بيان اور تفصيل رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نہ كرتے تو ہميں پتہ ہى نہ ہوتا كہ اس كى ادائيگى كس طرح ہو گى، اور نہ ہى ہم كوئى عبادت ادا كر سكتے تھے، جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم شريعت ميں يہ مقام اور مرتبہ ركھتے ہيں تو پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اطاعت حقيقت ميں اللہ كى اطاعت ہے.

ديكھيں: البحر المحيط ( 6 / 7 - 8 ).

اور جس طرح ايك مسلمان يہ ديكھتا ہے كہ اپنے آپ كو اہل قرآن كہنے والا يہ گمان ركھتا ہے كہ وہ قرآن مجيد كى تعظيم كر رہا ہے، حالانكہ وہ قرآن مجيد كا سب سے بڑا مخالف خود ہے اور دين سے خارج ہونے والوں ميں سب سے بڑا ہے؛ كيونكہ اس نے دين اور احكام دين كى ادائيگى كے ليے قرآن مجيد كو كافى بنا ليا ہے، تو اس طرح وہ ضرور بالضرور سنت نبويہ ميں موجود احكام پر عمل نہ كرنے كى وجہ سے كافر ہو گا، يا پھر وہ اس پر عمل كريگا تو وہ اس كا تناقض اور مخالف ہے!

سوم:

اللہ سبحانہ و تعالى نے اپنے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم كو دين اسلام دے كر مبعوث كيا، اور يہ عظيم نعمت صرف اكيلا قرآن ہى نہيں، بلكہ يہ قرآن اور سنت ہے، اور جب اللہ سبحانہ و تعالى نے امت پر احسان كا ذكر كرتے ہوئے دين كے مكمل اور اس نعمت كى تكميل بيان كى تو اس سے مقصود نزول قرآن نہيں تھا، بلكہ قرآن و سنت ميں احكام دين كى تكميل مراد تھى، اس كى دليل يہ ہے كہ اللہ تعالى كا اپنے بندوں پر اس نعمت كو پورا كرنے اور اكمال دين كى خبر دينے كے بعد بھى كئى آيات كا نزول ہے.

فرمان بارى تعالى ہے:

آج ميں نے تمہارے ليے تمہارے دين كو كامل كر ديا اور اپنا انعام بھرپور كر ديا، اور تمہارے ليے اسلام كے دين ہونے پر رضامند ہو گيا المآئدۃ ( 3 ).

بدر الدين زركشى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

قولہ تعالى:

آج ميں نے تمہارے ليے تمہارے دين كو پورا كر ديا .

يعنى: ميں نے تمہارے ليے احكام پورے كر ديے، نہ كہ قرآن؛ كيونكہ اس آيت كے بعد كئى ايك آيات نازل ہوئى ہيں جن كا احكام سے تعلق نہ تھا.

ديكھيں: المنثور فى القواعد ( 1 / 142 ).

اور ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

اللہ سبحانہ و تعالى نے اپنے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كى زبان سے اپنى كلام اور اپنے رسول كى كلام سے وہ سب كچھ بيان كيا جو حرام ہے اور جو حلال ہے، اور جس كا حكم ديا اور جس سے منع كيا، اور وہ سب كچھ جو معاف كيا، تو اس طرح اس كا دين كامل ہو گيا جيسا كہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:

آج كے دن ميں نے تمہارے دين كو تمہارے ليے مكمل كر ديا ہے، اور تم پر اپنى نعمت بھرپور كر دى ہے .

ديكھيں: اعلام الموقعين ( 1 / 250 ).

چہارم:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بيان كيا ہے كہ جس سنت كو وہ لائے ہيں وہ اللہ كى جانب سے ہونے اور حجت اور بندوں پر لازم ہونے كے اعتبار سے مثل قرآن ہے، اور آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے امر و نہى كے معاملات ميں صرف اكيلے قرآن مجيد كو لينے سے ڈرايا ہے، اور حرام كى مثال دے كر واضح كيا جو صرف سنت نبويہ ميں ہے اور اس كا قرآن مجيد ميں ذكر نہيں، بلكہ قرآن مجيد ميں اس كى حلت كا اشارہ پايا جاتا ہے اور يہ سب كچھ ايك ہى حديث ميں بيان ہوا ہے.

مقدام بن معديكرب رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" خبردار مجھے كتاب اور اس كے ساتھ اس كى مثل دى گئى ہے، خبردار قريب ہے كہ ايك پيٹ بھر كر كھانا كھايا ہوا شخص اپنے پلنگ پر بيٹھ كر يہ كہنے لگے: تم اس قرآن مجيد كو لازم پكڑو، اس ميں تم جو حلال پاؤ اسے حلال جانو، اور اس ميں جو تمہيں حرام ملے اسے حرام جانو.

خبردار ميں نے تمہارے ليے نہ تو گھريلو گدھے كا گوشت حلال ہے، اور نہ ہى ہر كچلى والے وحشى جانور كا "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 4604 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اللہ تعالى كے دين سے صحابہ كرام يہى سمجھے تھے:

عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:

" اللہ تعالى نے جسم گدوانے اور گودنے والى، اور ابرو كے بال اكھيڑنے والى اور خوبصورتى كے ليے دانت رگڑ كر اللہ كى خلق ميں تبديلى كرنے والى پر لعنت فرمائى ہے، بنو اسد كى ايك عورت ام يعقوب كو يہ بات پہنچى تو وہ آ كر كہنے لگى:

مجھے يہ پتہ چلا ہے كہ آپ نے ايسى ايسى عورت پر لعنت كى ہے، تو انہوں نے فرمايا: ميں كيوں نہ اس پر لعنت كروں جس پر اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم نے لعنت كى ہے اور جو كتاب اللہ ميں بھى ہے ؟

تو وہ عورت كہنے لگى: ميں نے دونوں جلدوں كے درميان جتنا بھى قرآن ہے اسے پڑھا ہے ليكن آپ جو كہہ رہے ہيں مجھے تو نہيں ملا.

عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہ كہنے لگے: اگر تم نے پڑھا ہوتا تو تم اسے ضرور پاتى؛ كيا تم نے يہ فرمان بارى تعالى نہيں پڑھا:

اور رسول ( صلى اللہ عليہ وسلم ) تمہيں جو ديں وہ لے لو اور جس سے منع كريں اس سے رك جاؤ الحشر ( 7 ).

تو وہ عورت كہنے لگى كيوں نہيں پڑھا، چنانچہ عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہ كہنے لگے: تو پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس سے منع فرمايا ہے، تو وہ عورت كہنے لگى: ميرے خيال ميں تو يہ آپ كى بيوى بھى كرتى ہے.

عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہ كہنے لگے: جاؤ جا كر ديكھ لو چنانچہ وہ ان كے گھر گئى تو اسے وہ كچھ نظر نہ آيا جو وہ چاہتى تھى.

تو عبد اللہ رضى اللہ تعالى كہنے لگے: اگر ايسا ہوتا تو وہ ہمارے ساتھ ہى نہ رہتى "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 4604 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2125 ).

تابعين عظام اور آئمہ اسلام نے بھى اللہ كے دين سے يہى سمجھا، وہ اس كے علاوہ كو نہيں جانتے تھے، وہ يہ سمجھتے تھے كہ استدلال اور التزام كے اعتبار سے ان دونوں ميں كوئى فرق نہيں، اور سنت نبويہ قرآن مجيد ميں جو كچھ ہے اس كى وضاحت ہے.

اوزاعى حسان بن عطيہ سے بيان كرتے ہيں كہ:

" جبريل عليہ السلام رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر سنت لے كر نازل ہوا كرتے تھےاور سنت قرآن كى تفسير بيان كرتى ہے.

اور ايوب سختيانى كہتے ہيں:

" جب كسى آدمى كے سامنے حديث بيان كرو تو وہ يہ كہے: يہ رہنے دو ہميں قرآن ميں سے كچھ بيان كرو، تو تم يہ جان لو كہ وہ خود بھى گمراہ ہے اور دوسروں كو گمراہ كرنے والا ہے.

اور اوزاعى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

اللہ تعالى كا فرمان ہے:

جو رسول كى اطاعت كرتا ہے اس نے اللہ كى اطاعت كى .

اور فرمان بارى تعالى ہے:

اور رسول كريم تمہيں جو ديں وہ لے لو، اور جس سے منع كريں اس سے رك جاؤ .

اوزاعى كا كہنا ہے:

قاسم بن مخيمرہ كہتے ہيں: رسول كريم صلى اللہ وسلم جب فوت ہوئے اور وہ حرام تھا تو وہ قيامت تك حرام ہے، اور آپ صلى اللہ عليہ وسلم كى موت كے وقت جو حلال تھا وہ قيامت تك حلال ہے.

ديكھيں: الآداب الشريعۃ ( 2 / 307 ).

بدر الدين زركشى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" حافظ دارمى كا كہنا ہے: نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" مجھے قرآن مجيد اور اس كى مثل ديا گيا ہے "

وہ سنن جس كا قرآن مجيد ميں بالنص ذكر نہيں، اور وہ اللہ كے ارادہ سے مفسر شدہ ہيں، مثلا گھريلو گدھے كے گوشت كى حرمت، اور ہر كچلى والا وحشى جانور، يہ دونوں قرآن مجيد كى نص ميں نہيں ہيں.

اور جو حديث ثوبان مروى ہے جس ميں بيان ہوا ہے كہ احاديث كو قرآن پر پيش كرو اس كے متعلق امام شافعى رحمہ اللہ " الرسالۃ " ميں كہتے ہيں:

جس كى چھوٹى يا بڑى چيز ميں حديث ثابت ہے اس ميں سے اسے كسى نے بھى روايت نہيں كيا "

اور امام المحدثين يحي بن معين رحمہ اللہ نے اس حديث پر موضوع كا حكم لگايا ہے، كہ اس حديث كو زنادقہ نے گھڑا ہے ابن عبد البر كتاب " جامع بيان العلم " ميں كہتے ہيں:

عبد الرحمن بن مھدى كا كہنا ہے: زنادقہ اور خوارج نے يہ حديث وضع كى:

" تمہارے پاس جو آئے اسے كتاب اللہ پر پيش كرو، اگر تو وہ كتاب اللہ كے موافق ہو تو وہ ميں نے كہا ہے، اور اگر وہ مخالف ہو تو ميں نے نہيں كہا "

حافظ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

يہ صحيح نہيں، اور كچھ لوگوں نے اسے قرآن پر پيش كيا اور وہ كہنے لگے: ہم اسے كتاب اللہ پر پيش كرتے ہيں تو يہ كتاب اللہ كے مخالف ہے؛ كيونكہ ہم اس ميں يہ نہيں پاتے كہ: وہى حديث قبول كرو جو كتاب اللہ كے موافق ہو، بلكہ ہم تو كتاب اللہ ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اطاعت اور آپ كى مخالفت سے ہر حالت ميں بچنے كا حكم پاتے ہيں " انتہى

اور ابن حبان رحمہ اللہ " صحيح ابن حبان " ميں لكھتے ہيں:

" قولہ صلى اللہ عليہ وسلم: " ميرى طرف سے آگے پہنچا دو چاہے وہ ايك آيت ہى ہو "

اس ميں دلالت ہے كہ سنت كو آيت كہا جا سكتا ہے .

ديكھيں: البحر المحيط ( 6 / 7 - 8 ).

پنجم:

حديث قرآن مجيد كى شرح ہے جس كى علماء كرام نے كئى ايك وجوہات بيان كى ہيں جن ميں سے كئى ايك يہ ہيں:

سنت قرآن مجيد كى موافق ہوتى ہے، اور مطلق كو مقيد كرتى ہے، اور اس كے عام كو خاص كرتى ہے، اور مجمل كى تفسير كرتى ہے، اور اس كے حكم كے ليے ناسخ بھى ہوتى ہے، اور نيا حكم بھى لاتى ہے، بعض علماء كرام اسے تين مرتبوں ميں جمع كرتے ہيں.

ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" مسلمان شخص كے ليے يہ اعتقاد ركھنا واجب ہے كہ نبىكريم صلى اللہ عليہ وسلم كى احاديث صحيحہ ميں كوئى ايك حديث بھى كتاب اللہ كے مخالف نہيں، بلكہ احاديث كے قرآن مجيد كے ساتھ تين مراتب ہيں:

پہلا مرتبہ:

نازل شدہ كتاب اللہ نے جس كى گواہى دى ہے حديث بھى اس كے موافق اور اس كى گواہى ديتى ہے.

دوسرا مرتبہ:

وہ احاديث جو كتاب اللہ كى تفسير بيان كرتى ہيں، اور اللہ تعالى كى مراد اور اس كے مطلق كو مقيد كرتى ہيں.

تيسرا مرتبہ:

وہ احاديث جن ميں وہ حكم بيان ہوا ہے جس سے كتاب اللہ ساكت ہے اسے واضح كرتى ہے.

ان تينوں اقسام ميں سے كسى ايك كو بھى رد كرنا جائز نہيں، كتاب اللہ كے ساتھ سنت نبويہ كو چوتھا مرتبہ نہيں ہے.

امام احمد رحمہ اللہ نے اس قول كے قائل كا انكار كيا ہے كہ سنت كتاب اللہ كو ختم كرتى ہے، امام احمد نے فرمايا: بلكہ سنت نبويہ كتاب اللہ كى تفسير و وضاحت كرتى ہے.

اللہ تعالى اور اس كے رسول بھى اس كى گواہى ديتے اور شاہد ہيں كہ كوئى ايك بھى رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے صحيح حديث ايسى وارد نہيں جو كتاب اللہ سے تناقض ركھتى ہو اور مخالف ہو، يہ كيسے ہو سكتا ہے حالانكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم تو كتاب اللہ كى وضاحت كرنے والے ہيں اور آپ صلى اللہ عليہ وسلم پر ہى كتاب اللہ نازل ہوئى ہے، اور اللہ نے ان كى اس طرف راہنمائى كى، اور وہ اس كى اتباع كے مامور ہيں اور پھر سارى مخلوق ميں سے وہ ہى اس كى تفسير كا زيادہ علم ركھنے والے ہيں ؟!

اگر احاديث رسول صلى اللہ عليہ وسلم كو رد كرنا جائز ہو تو آدمى كتاب اللہ كے ظاہر سے سمجھ نہ سكے تو اس طرح اكثر احاديث رد ہو جائينگى اور بالكل باطل ہو كر رہ جائينگى.

اور جس شخص كے سامنے بھى كوئى صحيح حديث پيش كى جائيگى جو اس كے مذہب اور ذہن كے خلاف ہو تو اس كے ليے عمومى يا مطلق آيات سے چمٹ جانا ممكن ہو گا، اور وہ يہ كہے گا: يہ حديث اس آيت كے عموم اور اطلاق كے مخالف ہے لہذا ہم قبول نہيں كرتے.

حتى كہ رافضى ( غالى قسم كے شيعہ ) اللہ انہيں تباہ كرے بعينہ وہ اس راہ پر چلتے ہوئے صحيح اور ثابت شدہ احاديث كو رد كرتے ہيں، وہ اس حديث كو بھى رد كرتے ہي:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" ہمارا وارث نہيں بنا جاتا ہم جو تركہ چھوڑتے ہيں وہ صدقہ ہے "

ان كا كہنا ہے يہ حديث كتاب اللہ كے مخالف ہے فرمان بارى تعالى ہے:

اللہ تعالى تمہارے ليے تمہارى اولاد ميں وصيت كرتا ہے لڑكے كو دو لڑكيوں كے برابر ہے .

اور جھميوں نے اللہ كى صفات ميں ثابت شداہ احاديث كو رد كيا ہے اور دليل يہ دى ہے:

اس كى مثل كوئى چيز نہيں .

اور خوارج نے شفاعت اور موحدين ميں سے اہل كبيرہ كو جہنم سے نكالنے والى احاديث كو ظاہر قرآن كى بنا پر رد كيا ہے.

اور جھميہ نے رؤيت والى احاديث كو ظاہر قرآن كى بنا پر رد كيا ہے، حالانكہ يہ احاديث بكثرت اور صحيح ہيں اور دليل يہ دى ہے:

اسے آنكھيں نہيں پا سكتيں .

اور قدريہ نے ظاہرى قرآن سے انہيں جو سمجھ آئى ہے قدر والى احاديث رد كر ديں.

ہر فرقہ نے ظاہر قرآن سے انہيں جو سمجھ آئى اس كى بنا پر احاديث كو رد كر ديا.

يا تو ان سب احاديث كو رد كرنے كا دروازہ كھٹكھٹايا جائے يا پھر ان سب احاديث كو قبول كرنے كا دروازہ كھٹكھٹايا جائے، اور ظاہر قرآن سے سمجھ كى بنا پر اس ميں سے كوئى حديث بھى رد نہ كى جائے، ليكن كچھ احاديث كو رد كرنا اور كچھ احاديث قبول و تسليم كرنا ـ اور مقبول احاديث كو ظاہر قرآن كى طرف اسى طرح منسوب كرنا جس طرح مردود احاديث منسوب كرتے ہيں ـ اس ميں تناقض ظاہر ہے.

جس كسى نے بھى ظاہر قرآن كى سمجھ كى بنا پر احاديث كو رد كيا مگر اس كے مقابلے ميں اس سے زيادہ احاديث قبول كيں حالانكہ وہ بھى اسى طرح تھيں.

امام شافعى اور امام احمد نے ظاہر قرآن كى بنا پر ہر كچلى والے وحشى جانور كى حرمت والى احاديث رد كرنے والے پر انكار كيا جنہوں نے درج ذيل آيت كى بنا پر حديث رد كى:

كہہ ديجئے جو ميرى طرف وحى كى گئى ہے ميں اس ميں حرام نہيں پاتا ... الآيۃ

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايسے شخص پر انكار كيا جس نے وہ سنت رد كى تھى جو قرآن ميں ذكر نہيں ليكن اس نے قرآن كے مخالف ہونے كا دعوى نہيں كيا تھا، تو پھر جو شخص يہ دعوى كرے كہ سنت اور حديث قرآن كے مخالف ہے تو آپ كا اس شخص كے بارہ ميں انكار كيسا ہو گا؟

ديكھيں: الطرق الحكميۃ ( 65 - 67 ).

علامہ البانى رحمہ اللہ كا " اسلام ميں حديث كا مقام و مرتبہ اور قرآن كے ساتھ اس سے مستغنى نہيں ہو ا جا سكتا " كے عنوان پر ايك پمفلٹ ہے جس ميں درج ہے:

" آپ سب جانتے ہيں كہ اللہ تبارك و تعالى نے محمد صلى اللہ عليہ وسلم كو نبوت و رسالت كے ليے چنا اور اختيار كيا اور ان پر قرآن كريم نازل فرمايا، اور اس ميں حكم ديا ـ آپ صلى اللہ عليہ وسلم كو جو حكم ديا گيا ـ اس ميں يہ بھى شامل ہے كہ وہ اسے لوگوں كے ليے بيان كر ديں.

فرمان بارى تعالى ہے:

اور ہم نے آپ كى طرف يہ ذكر ( كتاب ) نازل كيا ہے تا كہ لوگوں كى جانب جو نازل كيا گيا ہے آپ اسے كھول كھول كر بيان كر ديں النحل ( 44 ).

ميرے رائے ميں اس آيت ميں جو بيان مذكور ہے وہ دو قسم كے بيان پر مشتمل ہے:

اول:

لفظ اور نظم كا بيان، اور وہ قرآن كى تبليغ، اور عدم كتمان اور امت كى طرف اس كى ادائيگى ہے، بالكل اسى طرح جس طرح اللہ تعالى نے آپ كے دل پر نازل كيا ہے، اور درج ذيل آيت سے بھى يہى مراد ہے:

اے رسول ( صلى اللہ عليہ وسلم ) آپ كى طرف جو آپ كے رب كى جانب سے نازل كيا گيا ہے اسے پہنچا ديں المآئدۃ ( 67 ).

سيدہ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں:

" جس نے بھى آپ كو يہ كہا كہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كى تبليغ سے كچھ چھپايا ہے تو اس نے اللہ تعالى پر بہت بڑا جھوٹ اور بہتان باندھا، اور پھر عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا نے مذكورہ بالا آيت كى تلاوت كى "

اسے بخارى اور مسلم نے روايت كيا ہے.

اور مسلم كى روايت ميں ہے:

" اگر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم تبليغ كے معاملہ ميں كچھ چھپانا چاہتے تو اللہ تعالى كا يہ فرمان چھپاتے:

جب آپ اس شخص سے كہہ رہے تھے جس پر اللہ نے بھى كيا اور تو نے بھى كہ تو اپنى بيوى كو اپنے پاس ركھ اور اللہ سے ڈر اور تو اپنے دل ميں وہ بات چھپائے ہوئے تھا جسے اللہ ظاہر كرنے والا تھا، اور تو لوگوں سے خوف كھاتا تھا، حالانكہ اللہ تعالى اس كا زيادہ حق دار تھا كہ تو اس سے ڈرے الاحزاب ( 37 ).

دوم:

لفظ يا جملہ يا آيت كے معانى كا بيان جس كى امت محتاج اور ضرورتمند ہے، اور يہ اكثر طور پر مجمل يا عام يا مطلق آيات ميں ہے، تو حديث اس مجمل كى وضاحت، اور اس عام كى تخصيص اور مطلق كو مقيد كرتى ہے، تو يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے قول سے ہو گا جس طرح آپ كے فعل اور اقرار سے ہے.

اس كى مثال يہ فرمان بارى تعالى ہے:

چورى كرنے والے مرد اور چورى كرنے والى عورت كے ہاتھ كاٹ دو المآئدۃ ( 38 ).

ہاتھ كى طرح يہاں چور بھى مطلق ہے، ان ميں سے پہلے كو قول سنت نے بيان كيا اور چور كو ايك چوتھائى دينار كى چورى سے درج ذيل فرمان نبوى ميں مقيد كيا ہے:

" ايك چوتھائى دينار يا اس سے زائد ميں ہاتھ كاٹا جائيگا اس سے كم ميں نہيں "

اسے بخارى اور مسلم نے روايت كيا ہے.

اور اسى طرح دوسرے كا بيان نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے فعل يا صحابہ كرام كے فعل اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے اقرار سے ثابت ہے كہ:

" وہ چور كا ہاتھ كلائى سے كاٹتے تھے، جيسا كہ كتب احاديث ميں معروف ہے، اور قولى سنت نے تيمم والى آيت ميں مذكور ہاتھ كى وضاحت بھى كى ہے فرمان بارى تعالى ہے:

تو تم اپنے چہروں اور ہاتھوں كا مسح كرو النساء ( 43 ) اور المآئدۃ ( 6 ).

يہاں ہتھيلى مراد ہے، جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے درج ذيل فرمان ميں ہے:

" تيمم يہ ہے كہ چہرے اور ہتھيليوں كے ليے ايك بار ہاتھ زمين پر مارا جائے "

اسے احمد اور بخارى و مسلم وغيرہ نے عمار بن ياسر رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے.

ذيل ميں ہم چند دوسرى آيات پيش كرتے ہيں جن سے اللہ كى مراد صرف سنت نبويہ كے ذريعہ ہى سمجھى جا سكتى ہے:

1 - فرمان بارى تعالى ہے:

جو لوگ ايمان ركھتے ہيں اور اپنے ايمان كو ظلم كے ساتھ مخلوط نہيں كرتے ايسوں كے ليے امن ہے اور وہى راہ راست پر چل رہے ہيں الانعام ( 82 ).

اس آيت ميں موجود لفظ ظلم سے صحابہ كرام رضى اللہ عنہم عمومى ظلم سمجھے چاہے وہ چھوٹا ظلم ہى ہو، اسى ليے ان كے ليے اس آيت ميں اشكال پيدا ہوا تو انہوں نے عرض كيا:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ہم ميں سے كون ہے جس كا ايمان ظلم كے ساتھ مخلوط نہ ہو گا ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اس سے يہ مراد نہيں، بلكہ وہ تو شرك ہے؛ كيا تم نے لقمان كا قول نہيں سنا:

يقينا شرك ظلم عظيم ہے . لقمان ( 13 ) .

اسے بخارى اور مسلم وغيرہ نے روايت كيا ہے.

2 - فرمان بارى تعالى ہے:

اور جب تم سفر ميں جا رہے ہو تو تم پر نمازوں كے قصر كرنے ميں كوئى گناہ نہيں، اگر تمہيں ڈر ہو كہ كافر تمہيں ستائينگے النساء ( 101 ).

اس آيت كا ظاہر يہ تقاضا كرتا ہے كہ سفر ميں نماز قصر كرنا خوف كے ساتھ مشروط ہے، اسى ليے بعض صحابہ كرام نے دريافت كرتے ہوئے عرض كيا تھا:

اب تو ہم امن ميں ہيں تو پھر كيوں نماز قصر كر رہے ہيں ؟

چنانچہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" يہ صدقہ ہے جو اللہ تعالى نے تم پر صدقہ كيا ہے، اسے قبول كرو "

اسے مسلم نے روايت كيا ہے.

3 - اللہ عزوجل كا فرمان ہے:

تم پر حرام كيا گيا مردار، اور خون اور خنزير كا گوشت اور جس پر اللہ كے سوا دوسرے كا نام پكارا گيا ہو، اور جو گلا گھٹنے سے مرا ہو، اور جو كسى ضرب سے مر گيا ہو، اور جو اونچى جگہ سے گر كر مرا ہو، اور جسے درندوں نے پھاڑ كھايا ہو ليكن تم اسے ذبح كر ڈالو تو حرام نہيں، اور جو آستانوں پر ذبح كيا گيا ہو المآئدۃ ( 3 ).

قولى سنت نے بيان كيا ہے مرى ہوئى ٹڈى ( ٹڈى دل ) اور مچھلى اور خون ميں سے جگر اور تلى حلال ہے، چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" ہمارے ليے دو مرى ہوئى چيزيں اور دو خون حلال كيے گئے ہيں، ٹڈى اور مچھلى، يعنى سب قسم كى مچھلى ـ اور جگر اور تلى "

اسے بيہقى وغيرہ نے موفوع اور موقوف روايت كيا ہے، اور اس كى موقوف سند صحيح ہے جو كہ مرفوع كے حكم ميں ہے؛ كيونكہ يہ رائے كے ساتھ نہيں كہا جا سكتا.

4 - فرمان بارى تعالى ہے:

آپ كہہ ديجئے كہ جو احكام بذريعہ وحى ميرے پاس آئے ہيں ان ميں تو ميں كوئى حرام نہيں پاتا كسى كھانے والے كے ليے جو اس كو كھائے، مگر يہ كہ وہ مردار ہو يا كہ بہتا ہوا خون ہو يا خنزير كا گوشت ہو، كيونكہ وہ بالكل ناپاك ہے يا جو شرك كا ذريعہ ہو كہ غير اللہ كے ليے نامزد كر ديا گيا ہو، پھر جو شخص مجبور ہو جائے بشرطيكہ نہ تو طالب لذت ہو اور نہ ہى حد سے تجاوز كرنے والا تو واقعى آپ كا رب غفور الرحيم ہے الانعام ( 145 ).

پھر سنت نبويہ نے بھى كچھ اشياء حرام كى ہيں جو اس آيت ميں ذكر نہيں، جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" ہر كچلى والا وحشى جانور اور ہر ذى مخلب پرندہ حرام ہے "

اس موضوع ميں اس ممانعت كى اور بھى كئى احاديث ہيں مثلا خيبر والے روز نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" يقينا اللہ تعالى اور اس كا رسول تمہيں گھريلو گدھوں سے روكتے ہيں؛ كيونكہ يہ پليد ہيں "

اسے بخارى اور مسلم نے روايت كيا ہے.

5 - فرمان بارى تعالى ہے:

آپ كہہ ديجئے كہ اللہ تعالى كے پيدا كئے ہوئے اسباب زينت كو جن كو اس نے اپنے كے واسطے بنايا ہے اور كھانے پينے كى حلال چيزوں كو كس شخص نے حرام كيا ہے ؟ الاعراف ( 32 ).

تو سنت نے بھى بيان كيا ہے كہ زينت ميں كچھ ايسى اشياء بھى ہيں جو حرام ہيں، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ ايك روز آپ صحابہ كرام كے پاس نكلے آپ كے ايك ہاتھ ريشم اور دوسرے ہاتھ ميں سونا تھا اور آپ نے فرمايا:

" يہ دونوں ميرى امت كے مردوں پر حرام ہيں، اور ان كى عورتوں كے ليے حلال "

اسے حاكم نے روايت كيا اور اسے صحيح كہا ہے.

اس معنى كى بہت سارى احاديث معروف ہيں جو صحيحين وغيرہ ميں ہے، اس كے علاوہ اور بھى كئى ايك مثاليں ہيں جو حديث اور فقہ كا علم ركھنے والوں كے ہاں معروف ہيں.

اوپر جوكچھ بيان ہوا ہے ـ ميرے بھائيو ـ اس سے مصادر تشريع اسلامى ميں سنت نبويہ كى اہميت واضح ہوتى ہے، اور جب مذكورہ بالا مثالوں كى طرف دوبارہ نظر دوڑاتے ہيں ـ چہ جائيكہ ان مثالوں كو ديكھا جائے جنہيں ہم نے ذكر ہى نہيں كيا ـ تو ہميں يقين ہو جاتا ہے كہ سنت نبويہ كے بغير قرآن مجيد كو سمجھا ہى نہيں جا سكتا، بلكہ ہميں اس كے ساتھ احاديث نبويہ كو ملانا پڑےگا.

ديكھيں: منزلۃ السنۃ فى الاسلام صفحہ ( 4 - 12 ).

ہم نصيحت كرتے ہيں كہ اس كے متعلق آپ شيخ البانى رحمہ اللہ كےپمفلٹ كا مراجع ضرور كريں، كيونكہ وہ اس موضوع ميں ايك قيمتى رسالہ ہے.

اس سے يہ واضح ہوتا ہے كہ كسى كے ليے بھى حلال نہيں وہ احكام كے ثبوت اور اسے مكلف پر لازم كرنے كے ليے سنت نبويہ كو قرآن سے جدا كرتے ہوئے صرف قرآن كا سہارا لے، اور جو كوئى بھى ايسا كريگا تو سب سے بڑا اور عظيم مخالف قرآن ٹھرےگا، كيونكہ اس نے قرآن مجيد ميں موجود اطاعت نبى كے حكم پر عمل نہيں كيا، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے طريقہ پر نہيں چلا.

اور يہ واضح ہوا كہ سنت نبويہ قرآن مجيد كى تائيد اور وضاحت اور مطلق كو مقيد اور عام كو خاص كرتى ہے، اور اسى طرح سنت نبويہ ميں مستقل احكام بھى آئے ہيں، ان سب كا مسلمان شخص كو التزام كرنا لازم ہے.

آخرى چيز يہ ہے:

يہ سمجھ ليں كہ ہم اسے اپنے اور ان افراد كے مابين تنازع شمار كرتے ہيں جو قرآن مجيد پر اكتفا كرنا كافى خيال كرتے ہيں تو ہم انہيں كہينگے:

قرآن مجيد ميں ہميں حكم ديا گيا ہے كہ تنازع كے وقت قرآن اور سنت كى طرف رجوع كريں! اللہ تعالى كا فرمان ہے:

اے ايمان والو اللہ تعالى كى اطاعت كرو اور رسول كى اطاعت كرو، اور اپنے حكمرانوں كى، اور اگر تمہيں كسى معاملہ ميں تنازع پيدا ہو جائے تو اسے اللہ اور اس كے رسول كى طرف لوٹاؤ، اگر تم اللہ تعالى اور آخرت كے دن پر ايمان ركھتے ہو، يہ بہت بہتر ہے، اور باعتبار انجام كے اچھا ہے النساء ( 59 ).

تو ہمارا مد مقابل اس قرآنى دليل كا كيا كريگا؟ اگر وہ اسے قبول كرتا ہے تو پھر وہ سنت نبويہ كى طرف رجوع كرتا ہے اور اس كا قول باطل ہو جائيگا، اور اگر وہ سنت نبويہ كى طرف رجوع نہيں كرتا تو اس نے قرآن مجيد كى مخالفت كى جس كے بارہ ميں اس كا گمان تھا كہ وہ سنت سے كافى ہے.

اور سب تعريفات اللہ رب العالمين كى ہيں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب