"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
اول:
اللہ تعالى آپ كو دينى امور ميں حرص ركھنے پر جزائے خير عطا فرمائے، ليكن آپ نے يہ كام بہت دير سے كيا ہے آپ كو چاہيے تھا كہ آپ اس حادثہ كے فورا بعد تاخير كيے بغير دريافت كيا ہوتا تو بہتر تھا، ليكن لگتا ہے كہ آپ كو علم نہيں تھا كہ اس طريقہ سے نكاح غلط ہوتا ہے.
دوم:
بعض ممالك ميں عقد نكاح حنفى مسلك كے مطابق شرعى عدالت ميں كئے جاتے ہيں، آپ ديكھيں كے وہاں نكاح خوان بلند آواز سے كہتا ہے كہ عقد نكاح كتاب و سنت اور امام ابو حنيفہ كے مسلك كے مطابق كيا جا رہا ہے!
جو كہ شريعت كے مخالفت ہے، كسى بھى مسلمان شخص كو اپنى عبادت معاملات ميں كسى معين مسلك پر اعتماد نہيں كرنا چاہيے، اور ملكوں كو بھى ايسا نہيں كرنا چاہيے، كيونكہ ہو سكتا ہے مذاہب ميں شريعت كے مخالف بھى ہو، اور يہ بھى ہو سكتا ہے كہ اس سے زيادہ صحيح پايا جاتا ہو، تو پھر سب معاملات ميں كسى ايك معين مذہب پر اعتماد كيسے كيا جا سكتا ہے؟!
اس طريقہ كے مطابق عقد نكاح كرنے والے شخص كا رد كرنے كا آسان طريقہ يہ ہے كہ اسے كہا جائيگا: امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ سے پہلے كس طريقہ پر عقد نكاح كيا جاتا تھا ؟!
عقلمند شخص جانتا ہے كہ يہ عبارت صحيح نہيں بلكہ باطل ہے، اور وہ يہ بھى علم ركھتا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كسى كا بھى يہ عبارت بول كر نكاح نہيں كيا، اور عقلمند شخص يہ بھى جانتا ہے كہ آئمہ كرام نے بھى اس طرح شادياں نہيں كيں، ان آئمہ كرام ميں امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ خود بھى شامل ہيں !
بلكہ يہ چيز تو صرف متعصب قسم كے لوگوں سے معلوم ہوا ہے، اور ان لوگوں كا تعصب يہاں تك جا پہنچا ہے كہ وہ گمان كرنے اور كہنے لگے ہيں كہ جب عيسى عليہ السلام نازل ہوں گے تو وہ بھى فقہ حنفى كے مطابق فيصلے كيا كريں گے!!
حنفى مسلك ميں عقد نكاح كے وقت ولى كى شرط نہيں ہے بلكہ عورت خود اپنا نكاح كر سكتى ہے، جو كہ قرآن مجيد اور سنت صحيحہ كے مخالف ہے.
جب عورت كا ولى كے بغير نكاح ہو تو يہ نكاح باطل ہو گا كيونكہ حديث ميں اسے باطل قرار ديا گيا ہے، آپ اس كى تفصيل معلوم كرنے كے ليے سوال نمبر ( 7989 ) كا مطالعہ كريں.
اكثر طور پر عدالتميں جانے سے قبل ہى عقد نكاح ہوجاتا ہے، اس طرح آدمى عورت كے ولى سے موافقت طلب كر كے مہر كى تحديد كرتا ہے اور دونوں خاندانوں كے كچھ افراد كى موجودگى ميں عقد نكاح كيا جاتا ہے، اور پھر بعد ميں عقد نكاح كى توثيق شرعى عدالت يا دوسرے محكمہ سے كرائى جاتى ہے، اس طرح عدالت يا نكاح رجسٹرار كا كام تو صرف نكاح كى توثيق ہوا جس ميں كوئى حرج كى بات نہيں.
ليكن ... اس عقد نكاح كے صحيح ہونے ميں علماء كرام كے اختلاف كو مدنظر ركھتے ہوئے يہ كہا جائيگا كہ جب حاكم اور قاضى و جج اس نكاح كے صحيح ہونے كا حكم لگائے تو اس حكم كو توڑا نہيں جائيگا، اس صورت ميں اس نكاح كا صحيح كہا جائيگا تا كہ لوگ پريشانى ميں مبتلا نہ ہوں.
ابن قدامہ رحمہ اللہ ولى كے بغير عقد نكاح كے بارہ ميں كہتے ہيں:
" اگر حاكم اس عقد نكاح كے صحيح ہونے كا حكم دے يا پھر حاكم عقد نكاح كا ولى ہو تو اس كے حكم كو نہيں توڑا جائيگا، اور اسى طرح باقى فاسد نكاح بھى.
بعض علماء كرام كہتے ہيں كہ اس كے حكم كو توڑا جائيگا كيونكہ يہ نص كے خلاف ہے، ليكن پہلا قول اولى ہے؛ كيونكہ اس مسئلہ ميں اختلاف پايا جاتا ہے، اور اس ميں اجتھاد جائز ہے " انتہى بتصرف
ديكھيں: المغنى ( 9 / 346 ).
اور جب آپ احتياط چاہتے ہيں تو آپ بيوى كے ولى سے كہيں كہ وہ عقد نكاح دوبارہ كر دے، اس طرح وہ آپ سے كہے كہ ميں نے اپنى بيٹى كا تيرے ساتھ نكاح كيا، اور اسے قبول كر ليں، نكاح كى پہلى توثيق ہى كافى ہے، عقد نكاح ميں احتياط كا تقاضہ يہى ہے اور اولى بھى تا كہ بغير كسى شبہ كے عقد نكاح صحيح ہو.
واللہ اعلم .