"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
آپ نے میرے پہلے سوال کا جواب دیا کہ جس میں میں نے ایسی دوا کے بارے میں پوچھا تھا جو معمولی مقدار میں الکحل پر مشتمل ہے، لیکن مجھے مزید وضاحت چاہیے کہ آپ نے کہا: اگر الکحل معمولی مقدار میں ہے اور معمولی مقدار سے نشہ نہیں آتا تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن جس دوا کے بارے میں میں نے پوچھا تھا وہ دوا پینے کے قابل نہیں ہے بلکہ اسے سر کی جلد پر لگایا جاتا ہے، اور اس میں الکحل کی مقدار کتنی ہے تو مجھے اس کے بارے میں علم نہیں ہے تاہم اس کی بو بہت زیادہ ہے، تو اس بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
الحمد للہ.
اگر الکحل پر مشتمل دوا کو سر پر لگانے کے لیے استعمال کیا جائے گا، اسے نوش نہیں کیا جائے گا اور انسان کو اس دوا کی ضرورت بھی ہو تو پھر اس کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے، چاہے اس میں الکحل کتنی ہی زیادہ مقدار میں ہو یا اس کی بو کتنی ہی زیادہ ہو۔ لیکن اگر یہ ثابت ہو جائے کہ دوا میں استعمال شدہ الکحل نشہ آور ہے، اور اس قسم کی دوا اگر پینی پڑے تو اس سے نشہ آتا ہو، تو پھر ایسی دوا فروخت کرنا، یا خریدنا، یا اس کے ذریعے علاج کرنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ یہ خمر یعنی شراب ہے۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (1365 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
دائمی کمیٹی کے علمائے کرام سے پوچھا گیا:
الکحل یا شراب کو عمومی استعمال میں لانے کا کیا حکم ہے؟ یعنی اسے چیزوں کی پالش ، علاج ، جلانے ، صفائی، خوشبو، یا زخم صاف کرنے کے لیے یا سرکہ بنانے کے لیے استعمال کرنا کیسا ہے؟
تو انہوں نے جواب دیا:
"جس چیز کی زیادہ مقدار نوش کرنے سے نشہ آتا ہو تو وہ خمر یعنی شراب ہے، اور اس کی مقدار تھوڑی ہو یا زیادہ سب ہی یکساں ہیں، اب چاہے اسے کوئی بھی نام الکحل یا کچھ بھی دیا جائے، اس کے بارے میں واجب یہ ہے کہ اسے انڈیل دیا جائے اور اسے چیزوں کی پالش ، علاج ، جلانے ، صفائی، خوشبو، یا زخم صاف کرنے کے لیے یا سرکہ بنانے کے لیے یا کسی اور مقصد سے رکھنا حرام ہے ۔
لیکن جس کی زیادہ مقدار نشہ آور نہ ہو تو پھر وہ شراب نہیں ہے، اسے عطریات، علاج، اور زخموں وغیرہ کی صفائی کے لیے استعمال کرنا جائز ہے۔ " ختم شد
عبد العزيز بن اللہ بن باز عبد الرازق عفیفی عبد الله بن غديان عبد اللہ بن قعود
"فتاوى اللجنة الدائمة" (22/106)
اسی طرح ان سے یہ بھی پوچھا گیا:
مارکیٹ میں کچھ ادویات یا ٹافیاں وغیرہ فروخت ہو رہی ہیں جن میں بہت ہی معمولی سی مقدار میں الکحل پائی جاتی ہے، تو کیا انہیں کھانا جائز ہے؟ واضح رہے کہ اگر انسان ان ٹافیوں کو پیٹ بھر کر بھی کھا لے تو تب بھی کسی بھی صورت میں نشے کی حالت میں نہیں جاتا۔
تو انہوں نے جواب دیا:
"ٹافیوں اور ادویات وغیرہ میں اتنی معمولی مقدار میں الکحل کا استعمال کہ اس کی زیادہ مقدار تناول کرنے سے بھی نشہ نہ آئے تو اسے کھانا اور فروخت کرنا جائز ہے؛ کیونکہ ذائقے، رنگت اور بو میں الکحل کا کوئی اثر نہیں ہے؛ کیونکہ اس میں شامل شدہ الکحل کی ماہیت بدل گئی ہے اور اب یہ پاک اور مباح ہے، لیکن مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اس طرح کی چیزیں تیار کرے، اور نہ ہی مسلمانوں کے کھانے میں اسے شامل کرے، نہ ہی ایسی چیز کی تیاری میں مدد کرے۔" ختم شد
"فتاوى اللجنة الدائمة" (22/297)
واللہ اعلم