"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
عورت كے ولى كو حق حاصل ہے كہ وہ عقد نكاح ميں كسى اور كو وكيل بنائے، چاہے وہ اس كا قريبى ہو مثلا ماموں يا كوئى اور.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
نكاح ميں وكيل بنانا جائز ہے، چاہے ولى موجود ہو يا غائب ہو، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے مروى ہے كہ:
" آپ نے ابو رافع كو ميمونہ رضى اللہ تعالى عنہا كى شادى ميں وكيل بنايا تھا، اور عمرو بن اميۃ كو ام حبيبہ كے ساتھ شادى ميں اپنا وكيل بنايا تھا "
اور اس ليے بھى كہ عقد معاوضہ ہے اس ليے بيع كى طرح اس ميں بھى وكيل بنانا جائز ہوا " انتہى مختصرا
ديكھيں: المغنى ( 7 / 14 ).
اور مستقل فتاوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ہے:
" عقد نكاح شرعى طريقہ پر ہوگا وہ اس طرح كہ ولى يا اس كے وكيل كى جانب سے ايجاب اور خاوند يا اس كے وكيل كى جانب سے قبول اور دو عادل گواہوں كى موجودگى ميں ہو " انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميہ والافتاء ( 18 / 103 ).
اس بنا پر يہاں ماموں نے بھائى كى نيابت كرتے ہوئے جو عقد نكاح كيا ہے وہ عقد نكاح صحيح ہے، اور اس رخصتى كى تقريب ميں بھائى كا حاضر ہونا شرط نہيں ہے.
واللہ اعلم .