"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
اگر نفاس والى عورت كو ايك ہفتہ ميں ہى خون بند ہو جائے اور وہ رمضان كے روزے ركھنے لگے چند ايك روزے ركھنے كے بعد خون پھر آنا شروع ہو جائے تو كيا وہ اس حالت ميں روزے ركھنا چھوڑ ديگى يا نہيں، اور آيا جو روزے اس نے ركھے تو ان كى قضاء كرے گى يا نہيں ؟
الحمد للہ.
" اگر كسى نفاس والى عورت كو چاليس يوم كے اندر اندر خون بند ہو جائے اور وہ پاك ہو جانے كے بعد روزے ركھنے لگے اور چاليس يوم كے اندر ہى اسے دوبارہ خون آنے لگے تو اس كے روزے صحيح ہيں.
جب خون دوبارہ آنے لگے تو اسے نماز روزہ چھوڑ دينا چاہيے كيونكہ وہ نفاس كا خون ہے، اور جب تك پاك نہ ہو جائے نماز روزہ چھوڑے ركھے يا پھر چاليس يوم پورے ہونے تك، اور جب چاليس يوم پورے ہو جائيں تو وہ غسل كر كے نماز روزہ شروع كر دے چاہے وہ پاكى اور طہر نہ بھى ديكھے.
كيونكہ علماء كرام كے صحيح قول كے مطابق نفاس كى انتہائى مدت چاليس يوم ہے، اس كے بعد اسے ہر نماز كے ليے وضوء كر كے نماز ادا كرنا ہوگى حتى كہ خون بند ہو جائے، جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے استحاضہ والى عورت كو حكم ديا تھا.
اور ايسى عورت كے خاوند كو چاليس يوم كے بعد بيوى سے استمتاع وغيرہ كا حق حاصل ہے چاہے بيوى طہر اور پاكى نہ بھى ديكھے، كيونكہ اس حالت ميں آنے والا خون فاسد خون ہے جو نماز روزہ ميں مانع نہيں، اور نہ ہى خاوند كے ليے بيوى سے استمتاع كرنےميں مانع ہے.
ليكن اگر چاليس يوم كے بعد اسے عام عادت كے مطابق ماہوارى آ جائے يعنى جيسے ہى چاليس يوم پورے ہوں تو اس كے ماہوارى كے ايام تھے تو يہ خون حيض شمار كيا جائيگا"
اللہ سبحانہ و تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے " انتہى
فضيلۃ الشيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ.