"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
اول:
اگر اصلا آپ كى نيت ميں طلاق نہيں تھى، يعنى جب آپ نے بيوى كو يہ بات كہى تو صرف اسے ڈرانا دھمكانا مقصود تھا، اور مخالفت كى حالت ميں طلاق واقع نہيں كرنا چاہتے تھے، تو مونٹريال يا اس كے اپنے ملك ميں بغير اجازت گھر سے باہر نكلنے كى صورت ميں طلاق واقع نہيں ہوگى، بلكہ آپ كو صرف قسم كا كفارہ ادا كرنا لازم آئيگا.
دوم:
اولاد كا نفقہ والد كے ذمہ واجب ہے، چاہے بيوى نافرمان بھى ہو اور اسے طلاق بھى دے ديں تو بھى اولاد كا نفقہ واجب ہوگا، اور اسى طرح بيوى كے حاملہ ہونے كى صورت ميں حمل كا نفقہ بھى واجب ہے.
شرح منتھى الارادات ميں درج ہے:
" حاملہ عورت كا نفقہ اس كے حمل كے ليے ہے؛ كيونكہ يہ نفقہ حمل كى وجہ سے ہے لہذا حمل ہونے كى صورت ميں نفقہ واجب ہوگا، اور وضع حمل كى صورت ميں يہ نفقہ ساقط ہو جائيگا....
اور اگر بچہ ماں كے بيٹ ميں فوت ہو جائے تو اس سے نفقہ بھى منقطع ہو جائيگا، كيونكہ يہ نفقہ ميت كے ليے واجب نہيں ہوتا، اس طرح حاملہ نافرمان عورت كے ليے نفقہ واجب ہوگا؛ كيونكہ نفقہ تو حمل كے ليے ہے، يہ ماں كى نافرمانى كى بنا پر ساقط نہيں ہوتا " انتہى بتصرف
ديكھيں: شرح منتھى الارادات ( 3 / 231 ).
اللہ سبحانہ و تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كى زبان كى حفاظت فرمائے، اور ايسے اعمال كرنے كى توفيق نصيب فرمائے جنہيں وہ پسند فرماتا اور جن سے راضى ہوتا ہے.
واللہ اعلم .