"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
صحیح عقیدہ کیا ہے؟ اور میں کچھ باطل عقائد کے بارے میں بھی جاننا چاہتا ہوں۔
الحمد للہ.
1- کتاب وسنت کے شرعی دلائل سے یہ بات ذہن نشین ہونی چاہئے کہ کوئی بھی عمل یا قول اسی وقت صحیح اور قابلِ قبول ہوسکتا ہے جب کرنے والے کا عقیدہ درست ہو، چنانچہ عقیدہ درست نہ ہونے کی وجہ سے تمام اعمال اور اقوال باطل ہو جاتے ہیں، جیسے کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
( وَمَن يَكْفُرْ بِالإِيمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ وَهُوَ فِي الآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ ) المائدة/ 5
ترجمہ: اور جس نے بھی ایمان کے بجائے کفر اختیار کیا اس کا وہ عمل برباد ہوگیا اور آخرت میں وہ نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔
( وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ ) الزمر/ 65
ترجمہ: آپ کی طرف یہ وحی کی جا چکی ہے اور ان لوگوں کی طرف بھی جو آپ سے پہلے تھے، کہ اگر آپ نے شرک کیا تو آپ کے عمل برباد ہوجائیں گے اور آپ خسارہ اٹھانے والوں میں شامل ہوجائیں گے۔
اس مفہوم کی بہت زیادہ آیات قرآن مجید میں موجود ہیں۔
2- قرآن مجید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ صحیح عقیدہ: اللہ ، فرشتوں ، کتابوں ، رسولوں ، آخرت کے دن ، اور اچھی بری تقدیر پر ایمان لانے کا نام ہے، یہ چھ ارکان ہیں صحیح عقیدہ کے جسے اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں نازل کیا ہے اور اسی کو دیکر اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا ہے۔
ایمان کے چھ ارکان کے بارے میں کتاب و سنت میں بہت سے دلائل ہیں جن میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:
( لَيْسَ الْبِرَّ أَن تُوَلُّواْ وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَـكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَالْمَلآئِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ )البقرة/ 177
ترجمہ: نیکی یہی نہیں کہ تم اپنا رخ مشرق یا مغرب کی طرف پھیر لو۔ بلکہ اصل نیکی یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ پر، روز قیامت پر، فرشتوں پر، کتابوں پر اور نبیوں پر ایمان لائے۔
اسی طرح فرمایا: ( آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مِن رَّبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ كُلٌّ آمَنَ بِاللّهِ وَمَلآئِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لاَ نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّن رُّسُلِهِ ) الآية البقرة/ 285
ترجمہ: رسول پر جو کچھ اس کے پروردگار کی طرف سے نازل ہوا، اس پر وہ خود بھی ایمان لایا اور سب مومن بھی ایمان لائے۔ یہ سب اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لاتے ہیں (اور کہتے ہیں کہ) ہم اللہ کے رسولوں میں سے کسی میں بھی تفریق نہیں کرتے۔
ایک اور مقام پر فرمایا:( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ آمِنُواْ بِاللّهِ وَرَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي نَزَّلَ عَلَى رَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِيَ أَنزَلَ مِن قَبْلُ وَمَن يَكْفُرْ بِاللّهِ وَمَلاَئِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلاَلاً بَعِيداً ) النساء/ 136
ترجمہ: اے ایمان والو! (خلوص دل سے) اللہ پر، اس کے رسول پر اور اس کتاب پر ایمان لاؤ جو اس نے اپنے رسول پر نازل کی ہے۔ نیز اس کتاب پر بھی جو اس سے پہلے اس نے نازل کی تھی۔ اور جو شخص اللہ ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور روز آخرت کا انکار کرے تو وہ گمراہی میں بہت دور تک چلا گیا۔
اسی طرح احادیث کی کافی تعداد دلائل کے طور پر موجود ہے جن میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں:
صحیح مسلم میں روایت شدہ حدیث جسے امیر المؤمنین عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، کہ جبریل نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایمان کے بارے میں پوچھا، تو آپ نے فرمایا: ایمان یہ ہے کہ توں اللہ ، اسکے فرشتوں ، اسکی کتابوں، اسکے رسولوں، آخرت کے دن، پر ایمان لائےاور اچھی بری تقدیر پر ایمان لائے۔ الحدیث
بخاری مسلم نے اسے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔
انہی چھ ارکان سے ایک مسلمان پر اللہ کے بارے میں اعتقاد، آخرت کے دن کے بارے میں اور دیگر غیبی چیزوں پر ایمان کے بارے میں واجبات نکلتے ہیں۔
3- اللہ تعالی پر ایمان: اسکا مطلب ہے کہ وہی سچا معبود ہے، عبادت کا حق دار اکیلا وہی ہے، اس لئے کہ اُسی نے بندوں کو پیدا کیا، وہ ان پر احسان کرتا ہے، وہ انہیں رزق عنائت کرتا ہے، اور وہ انکے ظاہر و باطن سے واقف ہے، وہ اطاعت گزاروں کو ثواب دینے پر قادر ہے، نافرمانوں کو سزا دے سکتا ہے، اسی عبادت کیلئے اس نے جن و انس کو پیدا کیا اور انہیں اپنی عبادت کا حکم بھی دیا۔
جبکہ اس عبادت کی حقیقت یہ ہے کہ : وہ تمام کام جن کے ذریعے بندے اسکی بندگی کرتے ہیں وہ سارے کے سارے اللہ کیلئے خاص کر دئے جائیں، جیسے : دعا، خوف، امید، نماز ، روزہ، قربانی، نذر و نیاز وغیرہ سب عبادتیں اُسی کیلئے ہوں، ان عبادات میں خشوع و خضوع ہو، اسی کی طرف رغبت ہو، اسی کا ڈر ہو، اللہ تعالی سے کامل محبت بھی ہو، اور اسکی عظمت کے سامنے ہم ناتواں بھی ہوں۔
اللہ پر ایمان لانے میں یہ بھی شامل ہے کہ : جو عبادات اللہ تعالی نے اپنے بندوں پر فرض اور واجب کی ہیں ان پرایمان لایا جائے، جیسے کہ اسلام کے پانچ ارکان، اور وہ ہیں: گواہی دینا کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ برحق نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں، نماز قائم کرنا، زکاۃ ادا کرنا، رمضان کے روزے رکھنا، جو بیت اللہ کے حج کی استطاعت رکھے اسکے لئے حج بیت اللہ کرنا، اور اسکے علاوہ جو بھی شریعت نے ہم پر فرائض عائد کئے ہیں ان تمام پر ایمان لانا ، اللہ پر ایمان لانے میں شامل ہے۔
اسلام کے ارکان میں سب سے بڑا رکن اس بات کی گواہی ہے کہ "اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ برحق نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں" چنانچہ لا الہ الا اللہ کی گواہی اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ عبادت صرف اللہ کیلئے خاص ہو، اور باقی سب کا انکار ہو، لا الہ الا اللہ کا یہ معنی ہے، کیونکہ اس معنی ہی یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں، لہذا اللہ کے علاوہ جس کسی بشر، فرشتے، یا جن وغیرہ کی عبادت کی جائے گی وہ "معبودِ باطل "ہے، جبکہ "معبودِ برحق"صرف اللہ کی ذات ہے، جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
( ذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ مَا يَدْعُونَ مِن دُونِهِ هُوَ الْبَاطِلُ ) الحج/ 62
ترجمہ: یہ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ ہی حق ہے اور اللہ کے سوا جنہیں یہ لوگ پکارتے ہیں وہ سب کچھ باطل ہے ۔
"اللہ پر ایمان "میں یہ بھی شامل ہے کہ : اللہ کے اچھے اچھے ناموں پر ایمان ہو، قرآن مجید میں ذکر شدہ عالی شان صفات پر ایمان ہو، ایسے ہی جو اسماء و صفات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں ان پر ایمان بغیر تحریف، تعطیل، تکییف، اور تمثیل کے ہو، انہیں ایسے ہی بیان کیا جائے جیسےوہ نصوص میں بیان ہوئے ہیں، انکی کیفیت بیان نہ کی جائے، جو معنی خیزی ان اوصاف میں بیان ہوئی ہے اس پر ایمان لایا جائے، اور اس معنی کو اللہ تعالی کی شان کے مطابق بیان کیا جائے، اور اس بات سے اجتناب کیا جائے کہ اسےمخلوق کے ساتھ تشبیہ دی جائے، اس بارے میں فرمانِ باری تعالی ہے:
( لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُ ) الشورى/ 11
ترجمہ: کوئی چیز اس کے مشابہ نہیں اور وہ سب کچھ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔
4- فرشتوں پر ایمان: اجمالی اور تفصیلی ایمان پر مشتمل ہے، چنانچہ ایک مسلمان کا یہ ایمان ہونا چاہئے کہ اللہ تعالی نے فرشتوں کو اپنی اطاعت کیلئے پیدا کیا ہے اور اللہ تعالی نے انہیں "عباد مکرمون" کا وصف دیا ہے، وہ اللہ تعالی کے حکم سے آگے نہیں بڑھتے اور وہ اسی کے حکم سے عمل کرتے ہیں، قرآن مجید میں فرمایا:
( يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضَى وَهُم مِّنْ خَشْيَتِهِ مُشْفِقُونَ ) الأنبياء/ 28
ترجمہ: اللہ ان بندوں کے سامنے کے (ظاہری) احوال کو بھی جانتا ہے اور پوشیدہ احوال کو بھی۔ اور وہ صرف اسی کے حق میں سفارش کرسکیں گے جس کے لئے اللہ راضی ہو اور وہ ہمیشہ اس کے خوف سے ڈرتے رہتے ہیں۔
ان فرشتوں کی بہت سی اقسام ہیں، کچھ کی ذمہ داری عرش کو اٹھانے کی ہے، کچھ جنت اور جہنم کے داروغے ہیں، اور کچھ لوگوں کے اعمال لکھتے ہیں۔
اللہ تعالی اور اسکے رسول نے جن فرشتوں کا نام لیکر ذکر کیا ہے ہم ان فرشتوں کے بارے میں تفصیلی ایمان رکھتے ہیں، مثلاً: جبریل، میکائیل، مالک آگ کا داروغہ، اسرافیل انکی ذمہ داری صور پھونکنے کی ہے، انکا ذکر صحیح احادیث میں بھی آیا ہے، جیسے کہ صحیح بخاری میں ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتی ہیں کہ: (فرشتوں کو نور سے پیدا کیا گیا، اور جنوں کو آگ کے شعلے سے پیدا کیا گیا، اور آدم علیہ السلام کو اس سے پیدا کیا جو تمہیں بتلا دی گئی ہے) مسلم
5- کتابوں پر ایمان: ایک مسلمان پر واجب ہے کہ وہ اجمالی طور پر ایمان رکھے کہ اللہ تعالی نے اپنے انبیاء اور رسولوں پر کتب نازل فرمائیں، تاکہ لوگوں کو اللہ کا حق بتلا سکیں اور اسکی طرف دعوت بھی دیں، جیسے کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
( لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ) الآية الحديد/ 25
ترجمہ: بلاشبہ ہم نے رسولوں کو واضح دلائل دے کر بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کیا تاکہ لوگ انصاف پر قائم رہیں۔
اور جن کتب کا اللہ تعالی نام ذکر کیا ہے ان پر تفصیلی ایمان لاتے ہیں، جیسے تورات، انجیل، زبور، اور قرآن مجید۔
قرآن مجید ان تمام کتب میں افضل ترین اور آخری کتاب ہے، یہ دیگر کتابوں کی نگہبان بھی ہے، اور انکی تصدیق بھی کرتی ہے، یہ واحد کتا ب ہے جسکی اتباع پوری امت پر واجب ہے، اور اسی کو قانونی بالادستی حاصل ہے، اسکے ساتھ ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ سنت پر عمل بھی ضروری ہے ، اس لئے کہ اللہ تعالی نے آپکو جن و انس تمام کیلئے رسول بنا کر بھیجا ہے، اور اللہ تعالی نے آپ پر قرآن مجید نازل کیا تا کہ اسی کے ذریعے ان کے فیصلے کریں، اور اللہ تعالی نے اس قرآن مجید کو سینے کی بیماریوں کیلئے شفا بھی بنا یا اور اس میں ہر چیز کا بیان شامل کیا، مؤمنوں کیلئے اس میں ہدایت اور رحمت ہے ، اس بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا: ( وَهَـذَا كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ فَاتَّبِعُوهُ وَاتَّقُواْ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ ) الأنعام/ 155
ترجمہ: اور یہ کتاب (قرآن) جو ہم نے نازل کی ہے۔ بڑی بابرکت ہے لہذا اس کی پیروی کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو شاید کہ تم پر رحم کیا جائے۔
6- رسولوں پر ایمان: رسولوں پر بھی اجمالاً اور تفصیلاً ایمان ضروری ہے، چنانچہ ہم ایمان رکھتے ہیں کہ اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو رسول بنا کر خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا، انہوں نے حق کی دعوت دی؛ جس نے انکی بات کو مان لیا ، وہ کامیاب ہوگیا، اور جس نے انکی مخالفت کی وہ ناکام و نامراد لوٹا، ان انبیاء میں سب سے افضل اور آخری پیغمبر ہمارے نبی محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، اسی بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا: ( وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولاً أَنِ اعْبُدُواْ اللّهَ وَاجْتَنِبُواْ الطَّاغُوتَ ) النحل/ 36
ترجمہ: ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا (جو انھیں یہی کہتا تھا) کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو۔
اللہ تعالی نے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے کسی کا نام لیا تو ہم ان پر تفصیلاً ایمان لاتے ہیں، جیسے : نوح، ہود، صالح، ابراہیم، وغیرہ علیہم الصلاۃ و السلام ہیں۔
7- آخرت کے دن پر ایمان: آخرت کے دن پر ایمان لانے میں وہ تمام اشیاء شامل ہیں جن کے بارے میں ہمیں اللہ تعالی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلایا ہے، کہ موت کے بعد کیا ہوگا، مثلاً قبر کے سوالات، قبر کا عذاب، اور وہاں ملنے والی نعمتیں، پھر قیامت کے دن کے حالات و واقعات، اس دن کی سختیاں، پل صراط، اعمال کے وزن کیلئے ترازو، حساب ، جزا، لوگوں کے نامہ اعمال جو کسی کو دائیں ہاتھ میں ملیں گے اور کسی کو بائیں ہاتھ میں یا کمر کے پیچھے سے دئیے جائیں گے۔
ایمان بالآخرت میں یہ بھی شامل ہے کہ ، حوض پر ہمارا ایمان ہو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے پانی پلائیں گے، جنت و جہنم پر ایمان ہو، جنت میں مؤمنین اپنے رب کا دیدار کرینگے، اور وہ ان سے ہم کلام بھی ہوگا، اس کے علاوہ جو کچھ بھی قرآن مجید میں یا صحیح احادیث میں آیا ہے ان تمام پر ایمان لانا ضروری ہے، اور اسکی اسی انداز سے تصدیق ضروری ہے جیسے ہمیں اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کی ہے۔
8- تقدیر پر ایمان: اچھی بری تقدیر پر ایمان لانا چار چیزوں کو شامل ہے: 1) علم، 2) کتابت، 3) خلق، 4) مشیئت، اسکی تفصیل مندرجہ ذیل سوال کے جواب میں دیکھی جاسکتی ہے: ( 34732 )
9- ایمان باللہ میں یہ بات بھی شامل ہے کہ : ایمان زبان سے اقرار اور عمل کانام ہے، اطاعت کرنے سے ایمان میں زیادتی ہوتی ہے، اور نافرمانی سے ایمان کم ہوتا ہے، اور کسی بھی مسلمان کو شرک وکفر سے چھوٹے گناہ کے ارتکاب کی وجہ سے کافر نہیں کہا جاسکتا، مثلاً: زنا، چوری، سود خوری، شراب نوشی، والدین کی نافرمانی، وغیرہ جیسے کبیرہ گناہ کرنے کی وجہ سے کافر نہیں ہوگا بشرطیکہ ان گناہوں کو اپنے لئے حلال نہ سمجھے، اس کی دلیل اللہ کا فرمان:
( إِنَّ اللّهَ لاَ يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَن يَشَاءُ ) النساء/ 48
ترجمہ: اگر اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کیا جائے تو یہ گناہ وہ کبھی معاف نہ کرے گا اور اس کے علاوہ جو گناہ ہیں، وہ جسے چاہے معاف بھی کردیتا ہے۔
ایسے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے متواتر احادیث میں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالی جہنم سے ہر اس شخص کو نکال دے گا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہوا۔
10- ایمان باللہ میں یہ بھی شامل ہے کہ اللہ کیلئے محبت کی جائے، اور اللہ ہی کیلئے بغض رکھا جائے، دوستی اور دشمنی صرف اللہ کیلئے ہو، چنانچہ مؤمنوں سے محبت اس لئے ہو کہ وہ مؤمن ہے اور کفار سے دشمنی اس لئے ہو کہ وہ کافر ہے۔
اور اس امت میں سب سے بڑے رتبہ والے مؤمنین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام ہیں، چنانچہ اہل السنۃ و الجماعۃ ان سے محبت کرتے ہیں اور ان کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ انبیاء کے بعد افضل ترین لوگوں میں شامل ہیں، اسکی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (بہترین لوگ وہ ہیں جو میری صدی کے لوگ ہیں، پھر اسکے بعد آنے والے اور پھر انکے بعد آنے والے)اس حدیث کی صحت پر سب کا اتفاق ہے۔
اہل السنۃ کا عقیدہ ہے کہ افضل ترین صحابی : ابو بکر صدیق پھر عمر فاروق، پھر عثمان ذوالنورین، اور پھر علی المرتضی رضی اللہ عنہم جمیعاً ہیں، انکے بعد باقی عشرہ مبشرہ صحابہ اور پھر انکے بعد دیگر صحابہ کرام کا درجہ ہے، اہل السنۃصحابہ کرام کے اختلافات کے بارےمیں خاموشی اختیار کرتے ہیں، اور یہ سمجھتے ہیں کہ صحابہ کرام ان میں مجتہد تھے، جو اپنے اجتہاد میں درست تھا اسے دوہرا اجر ملے گا ، اور جو غلطی پر تھا اسے ایک اجر ضرور ملے گا، اہل السنۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت سے بھی محبت کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات امہات المؤمنین سے بھی محبت کرتے ہیں اور سب کیلئے "رضی اللہ عنہ"بھی کہتے ہیں۔
اہل السنۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام سے بغض رکھنے والے رافضیوں سے بالکل بری ہیں، جو اُنہیں سبّ و شتم کا نشانہ بناتے ہیں اور اہل بیت کی شان میں غلو سے کام لیتے ہیں، اور انہیں اس درجہ سے بھی بلند لے جاتے ہیں جو اللہ تعالی نے انہیں عطا فرمایا ، اہل السنۃ ان ناصبیوں سے بھی بری ہیں جو اہل بیت کو اپنی زبان اور عملی طور پر تکلیف پہنچاتے ہیں۔
11- مندرجہ بالا جو کچھ بھی ہم نے بیان کیا ہے یہی صحیح عقیدہ ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی نے دیکر بھیجا، اور یہی فرقہ ناجیہ کا عقیدہ ہے جو کہ اہل السنۃ والجماعۃ ہیں، جن کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (میری امت کی ایک جماعت حق پر قائم رہے گی، انکی مخالفت کرنے والا انہیں کچھ بھی نقصان نہ پہنچا سکے گا، یہاں تک کہ اللہ کا فیصلہ آجائے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ("یہودی اکہتر (71) فرقوں میں تقسیم ہوئے، عیسائی بہتّر (72) فرقوں میں بٹ گئے، اور یہ امت تہتّر (73) فرقوں میں تقسیم ہوگی ایک جنت میں جائے گا اور باقی جہنم میں جائیں گے "، صحابہ نے کہا: یا رسول اللہ ! وہ کون ہونگے؟ آپ نے فرمایا: (جو اس راستے پر ہونگے جس پر میں اور میرے صحابہ کرام ہیں) یہی وہ عقیدہ ہے جسے مضبوطی سے تھامنا ہمارے لئے انتہائی ضروری ہے، کہ اس پر استقامت حاصل کریں، اور جو بھی اس عقیدہ کے مخالف ہو اس سے بچ کر رہیں۔
12- اس عقیدہ سے انحراف کرنے والے اور اس کے خلاف چلنے والے لوگ بہت سی اقسام میں ہیں؛ ان میں سے بعض بت پرست، آستانہ پرست، اور کچھ فرشتوں، اولیاء، جن، حجر و شجر کی پوجا کرنے والے لوگ ہیں، ان لوگوں نے انبیاء کرام کی دعوت کو قبول ہی نہیں کیا، بلکہ انبیاء کرام کی دعوت کی مخالفت کی اور ہٹ دھرمی سے کام لیا، جیسے کہ قریش اور دیگر عرب قبائل نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا تھا، وہ لوگ اپنے جھوٹے معبودوں سے اپنی حاجت روائی اور مشکل کشائی کا سوال کرتے تھے، مریضوں کیلئے شفا انہی سے مانگتے، دشمنوں پر غلبہ بھی انہی سے طلب کرتے، اس کام کیلئے وہ ان کیلئے قربانیاں کرتے، نذریں مانتے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ان کاموں سے روکا اور ایک اللہ کی عبادت کیلئے دعوت دی تو انہیں یہ بہت ہی عجیب لگا اور اس دعوت کا انکار کر دیا اور کہنے لگے:
( أَجَعَلَ الْآلِهَةَ إِلَهاً وَاحِداً إِنَّ هَذَا لَشَيْءٌ عُجَابٌ ) ص/ 5
ترجمہ: اس نے تو سب خداؤں کو ایک ہی الٰہ بنا ڈالا۔ یہ کیسی عجیب بات ہے۔
پھر حالات بدلتے گئے اور اکثر لوگوں پر جہالت کا غلبہ آگیا، تو بہت سے لوگ جاہلیت والے کام کرنے لگے، انبیاء کرام اور اولیاء کی شان میں غلو کرنا، ان سے دعائیں مانگنا، اپنی حاجات کیلئے انہیں کو پکارنا، مختلف شکلوں میں شرکیہ کام ہونے لگے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے لا الہ الا اللہ کا معنی ایسے نہیں سمجھا جیسے عرب کے کفار نے سمجھا تھا، روز بروز لوگوں کے اندر شرک پھیلتا رہا، یہاں تک کہ ہمارا زمانہ آگیا، اور عہد نبوت سے لوگ مزید دور ہوتے چلے گئے۔
13- صحیح عقیدہ کے منافی کفریہ عقائد رکھنے والے لوگ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مخالف ہیں، یہ لوگ اس وقت "مارکس" اور "لینین" وغیرہ بے دین لوگوں کے پیروکار ہیں، یہ اپنے نظریات کو "سوشلزم"، یا "کمیونزم" کا نام دیں یا "بعثیت"، وغیرہ کا ان تمام مُلحد لوگوں کا نظریہ ہے کہ "کوئی معبود نہیں" صرف مادہ پرستی کا نام زندگی ہے، ان لوگوں کے نظریات میں آخرت، جنت ، جہنم کا انکار شامل ہے ، یہ لوگ تمام ادیان کو یکسر مسترد کرتے ہیں، جو شخص انکی کتب کا مطالعہ کرے اسے یقینی طور پر اس بات کا علم ہو جائے گا، اور اس میں کوئی شک نہیں یہ نظریہ تمام آسمانی مذاہب کے مخالف ہے، اور اپنے ماننے والوں کو دنیا و آخرت میں بد تر سے بدترین کی طرف دھکیل دے گا۔
14- حق مخالف نظریات میں باطنی اور کچھ صوفی لوگوں کے افکار بھی شامل ہیں، کیونکہ ان میں سے کچھ لوگ اپنے آپ کو ولی قرار دیکر امورِ کائنات میں اللہ تعالی کے ساتھ شراکت کا دعوی بھی کرتے ہیں، اور پھر انہیں قطب، وتد، غوث وغیرہ سے موسوم کرتے ہیں، یہ ربوبیت میں انتہائی گھٹیا قسم کا شرک ہے، یہ شرک جاہل عربوں کے شرک سے بھی گھناؤنا ہے، اس لئے کہ عرب کفار نے کبھی بھی ربوبیت میں اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا تھا، بلکہ انہوں نے صرف شرک فی العبادت کا ارتکاب کیا تھا، اور پھر وہ صرف آسودگی کی حالت میں شرک کیا کرتے تھے، جبکہ تنگی و ترشی میں صرف اللہ تعالی کی بندگی کرتے ہوئے اسی کو یاد کرتے اور پکارتے تھے، جیسے کہ ان کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا:
( فَإِذَا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ فَلَمَّا نَجَّاهُمْ إِلَى الْبَرِّ إِذَا هُمْ يُشْرِكُونَ ) العنكبوت/ 65
ترجمہ: پھر جب یہ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو اللہ کی مکمل حاکمیت کو تسلیم کرتے ہوئے خالصتاً اسے ہی پکارتے ہیں اور جب وہ انھیں بچا کر خشکی پر لے آتا ہے تو اس وقت پھر شرک کرنے لگتے ہیں۔
جبکہ ربوبیت کا وہ صرف اللہ تعالی ہی کیلئے اقرار کیا کرتے تھے، جیسے کہ ان کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا:
( وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ )الزخرف/ 87
ترجمہ: اور اگر آپ انہیں پوچھیں کہ انہیں کس نے پیدا کیا ہے تو یقینا کہیں گے کہ اللہ نے۔
( قُلْ مَن يَرْزُقُكُم مِّنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ أَمَّن يَمْلِكُ السَّمْعَ والأَبْصَارَ وَمَن يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيَّتَ مِنَ الْحَيِّ وَمَن يُدَبِّرُ الأَمْرَ فَسَيَقُولُونَ اللّهُ فَقُلْ أَفَلاَ تَتَّقُونَ ) يونس/ 31
ترجمہ: آپ ان سے پوچھئے کہ: آسمان اور زمین سے تمہیں رزق کون دیتا ہے؟ یا وہ کون ہے جو سماعت اور بینائی کی قوتوں کا مالک ہے؟ اور کون ہے جو مردہ سے زندہ کو اور زندہ سے مردہ کو نکالتا ہے؟ اور کون ہے جو کائنات کا نظام چلا رہا ہے؟ وہ فوراً بول اٹھیں گے کہ ''اللہ'' پھر ان سے کہئے کہ ''پھر تم اس سے ڈرتے کیوں نہیں؟''
اس مفہوم کی اور بھی بہت سی آیات ہیں۔
15- اسماء و صفات کے باب میں صحیح عقیدہ کے مخالف نظریات میں جہمی، معتزلی اور ان کے نقش قدم پر چلنے والے اہل بدعت کے افکار شامل ہیں ، جو اللہ کی صفات کا انکار کرتے ہیں، اور اللہ سبحانہ وتعالی کو تمام صفاتِ کمال سے عاری سمجھتے ہوئے اللہ تعالی کو معدوم ، جمادات، اور ناممکن اشیاء کی صفات سے متصف مانتے ہیں، اللہ تعالی ان کے نظریات سے کہیں بلند ہے۔
اسی طرح اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو اللہ کی کچھ صفات کو ثابت کرتے ہیں اور کچھ کا انکار کرتے ہیں جیسے اشاعرہ ہیں، اس لئے کہ جن صفات کو انہوں نے اللہ کیلئے ثابت کیا ہے انہی صفات وہ کچھ لازم آتا ہے ،جن سے بھاگتے ہوئے دیگر صفات کا انہوں نے انکار کیا ہے، اور اسکے لئے انہوں نے دلائل میں تاؤیل بھی کر ڈالی اور شرعی و عقلی دلائل کو پس پشت ڈال کر واضح تناقض میں پڑ گئے۔
شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ کی کتاب" العقيدة الصحيحة وما يضادها " سے اختصار کے ساتھ بیان کیا گیا۔
واللہ اعلم .