"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
عقد نكاح ہوا تو سب شروط پورى تھيں گواہ بھى موجود تھے اور ولى بھى حاضر تھا، ليكن نكاح درج ذيل طريقہ سے كيا گيا:
ميں نے اپنا ہاتھ دلہن كے ولى كے ہاتھ ميں ركھا ليكن اس نے لكھا ہوا عقد نكاح كچھ اس طرح پڑھا ( ميں نے تيرا نكاح ) فلاں لڑكى سے كيا ليكن اس ميں مہر كا ذكر نہيں كيا ميں نے اس كے جواب ميں قبول كے الفاظ دہرائے، اور بعد ميں دلہن كے ساتھ تھوڑى رقم پر متفق ہو گيا تو كيا جو كچھ ہوا اور يہ نكاح صحيح ہے يا نہيں ؟
الحمد للہ.
اگر عقد نكاح ميں مہر كا ذكر نہيں ہوا تو نكاح صحيح ہے ليكن اس صورت بيوى كو مہر مثل ديا جائيگا.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اگر مہر كا نام نہ ليا جائے تو عام اہل علم كے ہاں عقد نكاح صحيح ہو گا، اس كى دليل يہ ہے كہ اللہ عزوجل كا فرمان ہے:
اگر تم عورتوں كو بغير ہاتھ لگائے اور بغير مہر مقرر كيے طلاق دے دو تو بھى تم پر كوئى گناہ نہيں، ہاں انہيں كچھ نہ كچھ فائدہ دو البقرۃ ( 236 ).
اور روايت كيا جاتا ہے كہ ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما سے ايك ايسے شخص كے متعلق دريافت كيا جس نے ايك عورت سے شادى كى اور اس كا مہر مقرر نہ كيا گيا اور نہ ہى اس عورت سے دخول كيا اور اسى حالت ميں فوت گيا تو ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما نے فرمايا:
" اس عورت كو اس كى عورتوں جتنا مہر ديا جائيگا، نہ تو اس سے كم اور نہ ہى زيادہ، اور اس عورت پر عدت ہو گى، اور اسے وراثت بھى ملےگى، تو معقل بن سنان اشجعى رضى اللہ تعالى عنہ اٹھے اور كہنے لگے:
" رسول كريم صلى اللہ وسلم نے بروع بنت واشق جو ہمارى عورتوں ميں سے تھى كے متعلق بالكل وہى فيصلہ كيا جو آپ نے كيا ہے "
اسے ابو داود اور ترمذى نے روايت كيا اور ترمذى نے اسے صحيح قرار ديا ہے " انتہى
ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 7 / 182 ).
بغير مہر كے نكاح كو نكاح تفويض كا نام ديا جاتا ہے، اور اس كى دو قسميں ہيں:
پہلى قسم: تفويض البضع:
كوئى شخص اپنى بيٹى كا بغير مہر نكاح كر دے، اور كہے كہ: ميں نے تيرے ساتھ اپنى بيٹى كى شادى كر دى، اور مخاطب كہے: ميں نے قبول كر لى، اور اس ميں مہر كا ذكر نہ كيا جائے جيسا كہ آپ كے ساتھ ہوا ہے.
دوسرى قسم:
تفويض المہر: يہ كہ عقد نكاح ميں مہر كا ذكر تو كيا گيا ہو ليكن اس كى تعيين اور تحديد نہ ہوئى ہو كہ كتنا ديا جائيگا مثلا دولہا ولى كو كہے كہ ميں اتنا مہر ادا كرونگا جتنا تم چاہو گے، يا پھر ولى دولہا كو كہے جتنے آپ چاہتے ہيں مہر ادا كر ديں يا اس طرح كے اور الفاظ.
ان دونوں صورتوں ميں مہر مثل ديا جائيگا.
اور مہر مثل كى تحديد قاضى كريگا تا كہ اختلاف اور نزاع ختم ہو، اور اگر وہ قاضى كے پاس جائے بغير ہى كسى پر راضى ہو جائيں تو بھى كوئى حرج نہيں كيونكہ حق ان دونوں كا ہے كسى اور كا نہيں.
زاد المستقنع ميں درج ہے:
" تفويض البضع صحيح ہے، اور تفويض المہر بھى صحيح ہے اس صورت ميں عورت كو عقد نكاح ميں مہر مثل ملے گا، اور اس كو حاكم اور قاضى متعين كر كے لاگو كريگا، اور اگر وہ اس سے پہلے ہى دونوں راضى ہو جائيں تو جائز ہے " انتہى
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
قولہ: " اور اگر وہ اس سے قبل راضى ہو جائيں " يعنى اگر وہ قاضى اور حاكم كے پاس گئے بغير ہى راضى ہو جائيں تو حق ان دونوں كا ہے، يعنى اس ميں كوئى حرج نہيں، چنانچہ اگر وہ كہتے ہيں كہ ہم قاضى كے پاس كيوں جائيں ؟ بلكہ ہم آپس ميں اتفاق كر ليتے ہيں، خاوند كہے كہ مہر ايك ہزار اور بيوى دو ہزار مانگے، اور لوگ اس كا درميانہ حال نكال كر پندرہ سو وغيرہ كر ديں تو اس ميں كوئى حرج نہيں؛ كيونكہ ان دونوں سے حق تجاوز نہيں كرتا " انتہى
ديكھيں: الشرح الممتع ( 12 / 305 ).
اس سے آپ جان سكتے ہيں كہ نكاح صحيح ہے، اور جس مہر پر خاوند اور بيوى متفق ہو گئے ہيں اگر بيوى عقلمند ہے تو وہ مہر صحيح ہے.
واللہ اعلم .