"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
انٹرنیٹ بلاگز میں متحرک ایموجیز کااستعمال بہت زیادہ بڑھ گیا ہے، ان سے نمٹنے کا کیا طریقہ ہو سکتا ہے، لڑکیاں انہیں بہت زیادہ استعمال کرتی ہیں، ان کے ممکنہ متبادل وسائل کیا ہو سکتے ہیں؟
الحمد للہ.
اول:
ہر ذی شعور شخص یہ سمجھتا ہے کہ بچوں کی صحت پر کارٹونز کے منفی اثرات ہیں، پھر ان کے اثرات میں مزید شدت تب پیدا ہوتی ہے جب انہیں پیش کرنے کا طریقہ انتہائی مؤثر ہو اور بچہ ان سے بچنے کی صلاحیت بھی نہ رکھتا ہو؛ جن جدید آلات کے ذریعے یہ کارٹونز پیش کیے جا رہے ہیں وہ بہت ہی پر تاثیر ہیں، بچے تو کیا ان سے بڑے بھی محفوظ نہیں ہیں، پھر بچوں کے اندر ان سے دور رہنے کی صلاحیت بھی نہیں ہوتی ؛ کیونکہ بچے ابھی کچے ذہن اور کچے نظریات کے حامل ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ جس شخص نے بچپن میں کارٹون دیکھے ہوئے ہوں تو وہ اب بھی آپ کو من و عن بیان کر دے گا جیسے کہ وہ دیکھ کر بیان کر رہا ہو، پھر یہ بھی غور کریں کہ اس طرح بچوں کے ذہن میں کارٹون کے چال چلن نے ذہن پر کس قدر نظریات اور انمٹ نقوش چھوڑے ہیں، ان پر غور و فکر کرنے سے واضح ہو جائے گا کہ یہ نہایت ہی خطرناک چیزیں ہیں۔
الجزیرہ اخبار کے شمارہ نمبر: 12321 بروز جمعہ جمادی اولی سن 1427 ہجری میں مقالہ نگار ہدی غفیص کا تحقیقی کام شائع ہوا، جس میں کارٹون کے بچوں پر اثرات کا مختلف زاویوں سے جائزہ لیا گیا، انہوں نے اپنی تحقیق میں کہا کہ:
“اس علمی تحقیق میں مسلمان بچوں کے عقائد پر درآمد شدہ کارٹونوں کے خطرات سے خبردار کیا گیا ہے، کیونکہ ان میں منحرف خیالات ہیں جن کا مقصد نوجوانوں کے ذہنوں میں ایمانیات کو کمزور کرنا ہے ۔ نیز اس تحقیق نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ٹی وی اور سیٹلائٹ چینلز کی اصلاح کے لیے کوششوں کو مستحکم کرنا بہت ضروری ہو گیا ہے، تاکہ ہمارے نوجوانوں کو ان کے خلاف ہونے والی سازش سے بچایا جا سکے؛کیونکہ معاملہ اب ڈھکا چھپا نہیں ہے۔
اس تحقیق نے واضح کیا ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک نظریاتی جنگ شروع کی گئی ہے، جس کا ہدف بنیادی طور پر مسلمان بچوں کا ایمان، مذہبی بنیادیں، اللہ پر ایمان، اللہ کی کتابوں پر ایمان، اور رسولوں پر ایمان ہے۔
تحقیق میں واشگاف لفظوں میں واضح کیا گیا کہ جس وقت بچے اور بچیاں میڈیا سے منسلک ہونا شروع ہوتے ہیں عموماً بچوں کی عمر 3 سال جبکہ بچیوں کی عمر 5 سال ہوتی ہے۔ جو کہ بچے اور بچی کی نشوونما اور اس کے نظریات اور عقائد کی تشکیل کا سب سے اہم مرحلہ ہے۔
تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ماؤں کی ایک بڑی تعداد اس بات سے بے خبر ہے کہ آیا کارٹون بچوں کے نظریات پیدا کرنے میں کردار ادا کر سکتے ہیں یا نہیں، کیونکہ جن لوگوں کو اس تحقیق میں شامل کیا گیا تھا ان میں سے 75 فیصد کو یقین نہیں تھا کہ کارٹونوں کے بچوں کے نظریات اور عقائد پر اثرات مرتب ہوں گے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بچوں کے لیے دستیاب مواد کو صحیح انداز سے تیار کرنے کی شدید ضرورت ہے، تحقیق کار نے اس بات پر بھی زور دیا کہ کارٹونز بچے کے تصورات پر اثر انداز ہو کے بچے کے مخصوص نظریات بنانے کے لیے راستہ ہموار کرتے ہیں اور پھر یہی نظریات بچوں کی نفسیات پر گہرے اثرات کا باعث بنتے ہیں۔
لیکن افسوس ہے کہ “کارٹونز کے بچوں کے ذہنوں پر پڑنے والے اثرات ” کا مسئلہ سنگین نتائج کے باوجود مطلوبہ انداز میں زیر بحث نہیں لایا گیا، کہ جس سے اس مسئلے کی وجہ سے ہمارے بچوں کو لاحق سنگین خطرات کو نمایاں کیا جاتا۔” مختصراً ختم شد
دوم:
میڈیا سے تعلق رکھنے والے مقتدر افراد کی ذمہ داری بنتی ہے کہ مسلمان بچوں کے حوالے سے اللہ تعالی سے ڈریں، انہیں اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ ان کے میڈیا کی وجہ سے معاشرے تباہ و برباد ہو گئے ہیں، برائی عام ہو چکی ہے، تشدد اور خرابیاں عام ہیں۔ انہوں نے صرف نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو ہی فلموں ، ڈراموں اور گانوں کے ذریعے بے راہ روی میں ملوث کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ بچوں کی اخلاقیات اور نظریات کو بھی تباہ و برباد کرنے کی کوشش کی ہے اس کے لیے انہوں نے مشرق اور مغرب کے ممالک میں بنائے جانے والے بچوں کے پروگراموں کو مسلم سماج میں رواج دیا ہے۔
سوم:
والدین اور سرپرست افراد کو بچوں کے خلاف اٹھائے جانے والے مذکورہ اقدامات کا مقابلہ کرنے کے لیے درج ذیل اسباب اپنانے کا مشورہ دیا جاتا ہے:
1-بچوں کو قرآن کریم یاد کروائیں، اور چھوٹی عمر میں ہی ان سے یہ کام کروائیں۔
2-بچوں کے دلوں میں نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام کے ساتھ محبت پروان چڑھائیں اور اس کے لیے سیرت طیبہ اور صحابہ کرام کی زندگی کا اکٹھے بیٹھ کر مطالعہ کریں، اور اس کے لیے اچھی اور بچوں کی عمر کے مطابق مناسب کتابیں منتخب کریں۔
3-آسان انداز سے عقیدے کے مسائل انہیں سمجھائیں، مثلاً: توحید باری تعالی، عظمت الہی، اللہ تعالی سے محبت اور اللہ تعالی کا خوف، قدرتِ الہی، اللہ تعالی ہی خالق ہے، وہی رازق ہے، اور دیگر صفاتِ الہیہ جو بچوں کی عمر اور ذہنی سطح کے لیے موزوں ہو، انہیں اختیار کریں۔
4-بچوں کو برائی سے روکنے کی تربیت دیں، اور دل میں برائی سے نفرت پیدا کریں، اس لیے بچوں کو یہ سکھائیں کہ کوئی ایسے کارٹون نہ دیکھیں جن میں موسیقی ہو، یا غیر مناسب لباس میں لڑکیاں ہوں، یا صلیبی علامات ہوں، بلکہ اگر کسی کو کھاتے پیتے ہوئے دیکھے لیکن وہ اللہ کا نام نہ لے تو اس کی اس غلطی کو واضح کیا جائے، اسی طرح کوئی چوری کرے، یا ڈاکہ ڈالے یا قتل کرے تو تب بھی ان کے اس عمل کو غلط قرار دیا جائے۔ اس انداز سے کی گئی تربیت بچے کے مشاہدات کے لیے ان شاء اللہ بہت مفید ہو گی؛ کیونکہ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ ایسی غلط چیزیں اپنے نہیں بلکہ کسی کے گھر میں دیکھی جا رہی ہوں تو بچہ اسے فوری بند کر دے گا یا اسے دیکھنے کے لے تیار نہ ہو، جن بچوں کی اس انداز سے تربیت کی گئی ہو ان کے بہت اچھے اچھے واقعات موجود ہیں جو کہ بہت سی برائیوں کے روکنے کا باعث بنتے ہیں۔
غلط کارٹونوں کا متبادل:
1-اس طرح کے کارٹون بنائے جائیں جو کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق ہوں، لہذا ان میں کسی بھی قسم کی برائی نہ پائی جائے، اور بچوں کو اچھے اخلاق سکھائے، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پہلے والے کارٹونوں کو ہی دوبارہ بنایا جائے، لیکن ان میں سے قابل اعتراض چیزیں نکال دی جائیں، اور ان میں پائے جانے والے کرداروں کی ڈبنگ صحیح جملوں کے ساتھ کی جائے جس میں شریعت کی مخالفت نہ ہو، عربی چینل “المجد” نے یہ طریقہ کار اپنا کر اچھا اقدام کیا ہے، اس چینل پر بھی کارٹون دکھائے جاتے ہیں، اور ان میں کارٹونوں کی دوبارہ سے ڈبنگ کی گئی ہے، اس طرح بچے کی چاہت بھی پوری ہو جاتی ہے اور تعلیم و تربیت کا بھی اہتمام ہو جاتا ہے۔
الشیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
کچھ اسلامی اسٹوڈیوز میں کارٹون بنائے جا رہے ہیں، ان کے دعوے کے مطابق یہ کارٹون اسلامی ہیں، مثلاً: “قسطنطینیہ کی فتح” اسی طرح “سلامتی کا سفر” اور کچھ عرصہ پہلے “نجران کا نوجوان” کارٹون پیش کیے گئے ہیں جس کا ذکر سورت البروج میں ہے اسی طرح اس کا ذکر صحیح مسلم کی روایت میں بھی ملتا ہے، اس طرح کے کارٹون بنانے کا مقصد یہ ہے کہ غلط قسم کے کارٹونز کا متبادل فراہم کیا جائے، تو شیخ مکرم اس کا کیا حکم ہے؟
تو انہوں نے جواب دیا:
“مجھے لگتا ہے کہ اس میں ان شاء اللہ کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ جیسے کہ آپ نے سوال میں بھی ذکر کیا کہ اس سے بچوں کو غلط چیزوں سے محفوظ بنایا جا سکے گا، تو ان کے حوالے سے ہم زیادہ سختی بھی کریں تو کم از کم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ شرکیہ اور کفریہ کارٹونز سے بہتر ہیں؛ کیونکہ دیگر کارٹونز میں عقائد کو مشکوک بنایا جاتا ہے، بارش کے منظر کے وقت اللہ تعالی کی نعوذباللہ شبیہ بنائی جاتی ہے، اسی طرح کی اور بھی قابل گرفت چیزیں ہیں، بہ ہر حال مجھے ایسے کارٹونز میں کوئی حرج محسوس نہیں ہوتا۔۔۔
تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر ان میں مثبت سرگرمیاں ہیں تو ان شاء اللہ ان میں کوئی حرج نہیں ہے، اور اگر ان میں موسیقی بھی پائی جاتی ہے تو یہ صحیح نہیں ہو گا؛ کیونکہ موسیقی حرام کاموں میں شامل ہے۔” ختم شد
” لقاءات الباب المفتوح ” ( 127 / سوال نمبر: 10 )
2-معلوماتی اور دستاویزی پروگرام دیکھیں، ان سے تفریح اور تعلیم دونوں ہی حاصل ہوں گی، ایسے بہت سے ویڈیو پروگرامز دستیاب ہیں، جن میں سمندری حیات، جنگلی جانوروں کے متعلق ویڈیوز وغیرہ شامل ہیں، مجد دستاویزی چینل اس حوالے سے اچھی کارکردگی پیش کر رہا ہے، اور المجد چینل کے پروگرام موسیقی اور خواتین سے پاک ہوتے ہیں۔
منتخب کارٹون اسلامی ہدایات کے مطابق ہونے چاہییں، تحقیق نگار ہدی غفیص نے اپنے مقالے میں اس سے متعلق کچھ چیزیں ذکر بھی کی ہیں، چنانچہ اخبار الجزیرہ میں ان کی شائع شدہ تحقیق میں ہے کہ:
“یہ تحقیق بچوں کے لیے ویڈیو مواد تیار کرنے کے کچھ آداب تجویز کرتی ہے کہ یہ آداب ہر وقت ان کے سامنے ہونے چاہییں، ان میں سے چند یہ ہیں:
کوئی بھی ایسی ویڈیو تیار نہ کی جائے جس کی وجہ سے بچوں بھی خوف اور ہراسگی پیدا ہو؛ اس لیے کہ بچہ 2 سال سے لے کر 5 سال تک کسی بھی خوفناک چیز کو دیکھ کر فوری ڈر جاتا ہے، چنانچہ کارٹون میں تنہائی، آگ، درندے اور دیو مالائی چیزیں نہیں ہونی چاہییں، مثلاً: جن ، بھوت وغیرہ کیونکہ ایسے مناظر دیکھنے سے بچہ نفسیاتی طور پر مریض بن سکتا ہے۔
بچوں کے لیے تیار کیے جانے والے ویڈیو مواد میں اخلاق اقدار پروان چڑھانے کا خصوصی خیال رکھا جائے، اور غمگین مناظر زیادہ نہ دکھائے جائیں؛ کیونکہ اس سے بچے کی شخصیت پر منفی اثر پڑے گا، اور بچہ مشکلات کا سامنا کرنے کی صلاحیت حاصل نہیں کر پائے گا، اخلاقی اقدار بھی تفریحی ، اور ہنستے کھیلتے انداز میں ہی سکھلائی جائیں۔
اس تحقیق نے اس بات پر بھی زور دیا کہ بچوں کے لیے میڈیائی مواد تیار کرنا محض وقت پاس مشغلہ نہیں ہے بلکہ علم اور فن ہے، اس لیے ہمیں مواد تیار کرتے ہوئے علمی، فنی اور وسیع تجربے کو ساتھ رکھنا ہو گا، پھر یہاں اس چیز کا بھی خیال رکھیں کہ تصوراتی چیزوں کو بھی بہت زیادہ شامل نہ کریں؛ کیونکہ اس کے بھی بچے کی عقل پر گہرے اثرات ہوں گے، اس لیے معمولی مقدار میں تصوراتی چیزیں شامل کی جائیں۔
اس تحقیق کے مطابق یہ بھی ضروری ہے کہ کارٹون کے اثرات کا بھی مکمل جائزہ لیا جائے کہ یہ اثرات بھی شریعت کے مطابق ہیں یا نہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ ویڈیو مواد تیار کرتے ہوئے مقصد صرف یہ رہ جائے کہ بچے کو تفریح ملے اور دستیاب کارٹون کا متبادل فراہم کیا جائے۔ لہذا یہ چیز بھی مد نظر رکھی جائے کہ متبادل کارٹون نے بچوں کو کیا اسلامی چیز دی ہے۔ کیونکہ یہ چیز ملحوظ کی گئی ہے کہ جب بھی کسی غیر شرعی چیز کا متبادل دیا جاتا ہے تو اس میں یہ تو دیکھا جاتا ہے کہ اس میں شریعت سے متصادم کوئی چیز نہیں ہے، لیکن یہ نہیں دیکھا جاتا کہ اس متبادل کارٹون نے کس قدر اسلامی عقائد بچوں کے دل میں راسخ کیے ہیں؟! اس کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کی جائے اور بچوں کی عمر کو بھی مد نظر رکھا جائے، اسی طرح شرعی علوم کے متخصص افراد بھی بچوں کی ذہنی سطح کو نشانہ بنانے والے مواد کے متعلق اپنی ذمہ داری ادا کریں۔” ختم شد
3-بچوں کو صحت مند رہنے کے لیے کسی بھی مفید سرگرمی میں مصروف کریں، مثلاً: کھیل کھیلیں، تیراکی وغیرہ جیسی مفید جسمانی گیم کریں، اس سے بچوں کو فائدہ بھی ہو گا اور انہیں تفریح بھی ملے گی، پھر ان سرگرمیوں کے لیے جس کلب کا انتخاب کریں وہ بھی معیاری ہونا چاہیے، اسی طرح وہاں موجود بچوں میں سے اچھے بچوں کو ہی دوست بنائیں ۔
4-اسلامی ویب سائٹس کا وزٹ کریں جن میں خصوصی طور پر بچوں کے لیے زمرے مختص کیے گئے ہیں، کہ وہاں پر فلیش ویڈیوز، یا گیمز، یا قصص الانبیاء اور صالحین کے واقعات پر مشتمل کارٹون موجود ہیں۔ ان میں اسلامی غزوات اور معرکوں کی تفصیلات بھی موجود ہے، اس کے لیے آپ “الشبكة الإسلامية” ویب سائٹ پر بچوں کے لیے مختص ٹیب پر بھی جا سکتے ہیں، وہاں ان شاء اللہ فائدہ ہو گا۔
محترم سوال کنندہ بھائی! آپ جانتے ہیں کہ ہم بچوں کے ساتھ اس طرح بات نہیں کرتے جیسے بڑوں کے ساتھ کرتے ہیں، اس لیے والدین وغیرہ پر لازم ہے کہ بچوں کی ویڈیوز دیکھنے کی رغبت کو بھی صحیح طریقے سے پورا کریں، اسی طرح انہیں کھیلنے کا وقت بھی دیں، لیکن ساتھ ہی یہ بھی ہے کہ ہم بچوں کو آزاد بھی نہیں چھوڑ سکتے مبادا وہ کسی شرعی مخالفت میں ملوث نہ ہو جائیں، اور بچہ سدھرنے کی بجائے بگڑ جائے، اس لیے ہم ایسے اداروں اور کمپنیوں کو دعوت دیں گے کہ بچوں کے لیے ایسی ویڈیوز تیار کریں جس سے بچوں کو فائدہ ہو، اس حوالے سے کوتاہی مت کریں؛ کیونکہ اس کام کی انہیں بھی ضرورت ہے اور بچوں سمیت بچوں کے والدین کو بھی ضرورت ہے، اسی طرح بچیوں کے لیے بھی ایسے مواد کو تیار کرنے کی ضرورت ہے جو بچیوں کو بچپن سے ہی حیا اور نظر جھکا کر رکھنے کی تربیت دے۔
محترمہ “ہدی غفیض” کے جس مقالے کا ہم نے جواب کے آغاز میں تذکرہ کیا ہے اس میں اس حوالے سے بھی مفید تجاویز ہیں۔
الجزیرہ اخبار میں ان کے مقالے کو پیش کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ:
“میڈیا ذرائع کے منفی اثرات سے تحفظ اور علاج کے متعلق تحقیق میں تجویز دی گئی ہے کہ ایمانی بنیادوں پر تربیت کرنے سے منفی اثرات کا علاج بھی ممکن ہے اور آئندہ کے لیے تحفظ بھی، اس لیے قلبی اصلاح کی جائے، عقیدے کو مضبوط بنایا جائے اس طرح میڈیا کے منفی اثرات ختم یا کم ہو سکتے ہیں، زیر نظر تحقیق میں کچھ منفی اثرات کو مد نظر رکھ کر ان کا علاج اور حل بھی تجویز کیا گیا ہے، مثلاً:
اول: فٹ بال کے کھلاڑیوں فلموں کے اداکاروں اور فنکاروں وغیرہ کے انٹرویو بہت زیادہ شائع کیے جا رہے ہیں، میڈیا انہی کی زندگی اور نجی تقریبات کے آس پاس گھومتا ہے اور نسل نو کے لیے انہیں آئیڈیل بنا کر دکھاتا ہے۔ تحقیق یہ تجویز کرتی ہے کہ: بچے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات اقدس کو نمونہ بنایا جائے، اس کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی کو کہانی کی شکل میں بچوں کے لیے مرتب کیا جائے۔
دوم: بچے کارٹون کے کرداروں کے نام یاد کر لیتے ہیں، اور پھر ویسے ہی کپڑے اور لباس مانگتے ہیں جو دیکھتے ہیں۔ اس کا علاج یہ ہے کہ: ہم بچوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ، صحابہ کرام اور مسلمانوں کی تاریخ کے مطابق اپنا مظہر اختیار کرنے والا بنائیں۔
سوم: بچے ایسے نظریات اور افکار بڑی جلدی قبول کر لیتے ہیں جو ہمارے نظریات سے متصادم ہیں، اس خرابی کے لیے یہ تحقیق یہ علاج اور حل تجویز کرتی ہے کہ بچے کو ذاتی طور پر اتنا مضبوط بنایا جائے اور اسے قرآن مجید سکھائیں کہ اپنی زندگی کے ہر معاملے کو قرآن کریم سے منسلک کر دے۔
چہارم: اپنے مسلمان ہونے پر خوشی کا احساس کم ہوتا جا رہا ہے کہ بچہ اپنے مسلمان ہونے پر فخر کرے؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ بچے کی تربیت اسلام سے محبت پر نہیں ہوئی، اسے اس چیز پر آگہی نہیں دی گئی کہ موحد اور مسلمان ہونا بہت بڑی نعمت ہے۔ اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ: تسلسل کے ساتھ اسلامی خوبیاں عیاں کی جائیں، اور اس کے لیے مختلف موزوں مواقع پر اسلام اور دیگر ادیان کا موازنہ پیش کیا جائے، دین اسلام کے متعلق ہماری ذمہ داری کو واضح کیا جائے کہ اس امانت کو آگے پہنچانا ہم پر فرض ہے۔” ختم شد
واللہ اعلم