"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
جس چوپائے كے ساتھ لواطت كى گئى ہو اس جانور كو قتل كر ديا جائيگا، اور اس كا گوشت نہيں كھايا جائيگا، اور اگر وہ جنسى زيادتى كرنے والے شخص كى ملكيت ہو تو اس كى كوئى ضمان نہيں، ليكن اگر كسى دوسرے كى ملكيت ہو تو اسے اس جانور كى ضمان اور قيمت بھى ادا كرنا ہو گى.
اور بدفعلى كرنے شخص كو تعزير لگائيگى، اور ايك قول يہ بھى ہے كہ اسے قتل كر ديا جائيگا، كيونكہ اس ميں درج ذيل حديث وارد ہے، ليكن يہ حديث ضعيف ہے.
عكرمہ ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جسے تم كسى چوپائے كے ساتھ بدفعلى كرتے ہوئے پاؤ تو اسے قتل كر دو، اور چوپايا بھى قتل كر دو "
ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے دريافت كيا گيا:
چوپائے كو قتل كيوں كيا جائيگا؟
تو انہوں نے فرمايا: اس سلسلہ ميں ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ سے كچھ نہيں سنا، ليكن ميرا خيال يہ ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ناپسند كيا كہ اس كا گوشت كھايا جائے، يا اس سے نفع اٹھايا جائے، اور اس سے ايسى بدفعلى كى گئى ہو.
سنن ترمذى حديث نمبر ( 1455 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 4464 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2564 ) اس حديث كو ابو داود اور طحاوى نے ضعيف قرار ديا ہے اور امام ترمذى نے اس حديث كے بعد كہا ہے: اور سفيان ثورى نے عاصم سے اور انہوں نے ابو رزين سے اور انہوں نے ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے بيان كيا ہے كہ:
" جو چوپائے كے ساتھ بدفعلى كرے اس پر كوئى حد نہيں "
ہميں يہ محمد بن بشار نے عبد الرحمن بن مہدى سے اور وہ سفيان ثورى سے بيان كيا ہے، اور پہلى حديث سے يہ زيادہ صحيح ہے، اور اہل علم كے ہاں عمل بھى اسى پر ہے، اور امام احمد اور اسحاق كا قول بھى يہى ہے.
اور الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے:
" جمہور فقھاء كا مسلك ہے كہ چوپائے كے ساتھ بدفعلى كرنے والے پر كوئى حد نہيں، ليكن اس پر تعزير لگائى جائيگى، كيونكہ ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے كہ:
جو چوپائے كے ساتھ بدفعلى كرے اس پر كوئى حد نہيں "
اور اس طرح كا قول توقيف سے ہى كہا جا سكتا ہے، اور اس ليے كہ سليم الطبع اس كا انكار كرتى ہيں، تو حد لگانے كى دليل نہيں لى جا سكتى.
اور شافعيہ كا قول ہے:
اسے زنا كى حد لگائى جائيگى، اور امام احمد سے بھى ايك روايت يہى ہے.
اور شافعيہ كا ايك دوسرا قول يہ ہے:
اسے مطلقا قتل كيا جائيگا، چاہے وہ شادى شدہ ہو يا كنوارہ.
اور جمہور فقھاء ( احناف، مالكيہ، شافعيہ ) كا مسلك ہے كہ: چوپايا قتل نہيں كيا جائيگا، اور اگر قتل كر ديا جائے تو بغير كسى كراہت كے كھانا جائز ہے، مالكيہ اور شافعيہ كے ہاں اگر وہ كھائے جانے والے جانور ميں سے ہو، اور ابو يوسف اور محمد نے اسے كھانے سے منع كيا ہے، ان كا كہنا ہے:
اسے ذبح كر كے جلا ديا جائيگا.
اور امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ نے اس كى اجازت دى ہے، اور احناف نے اس سے زندہ يا مردہ نفع لينے كى كراہت بيان كى ہے.
اور حنابلہ كا مسلك يہ ہے كہ: چوپايا قتل كيا جائيگا چاہے وہ اس كى اپنى ملكيت ہو يا كسى دوسرے كى، اور چاہے كھايا جانے والا ہو يا نہ كھايا جانے والا.
شافعيہ كے ہاں بھى يہى قول ہے، كيونكہ ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے مرفوعا مروى ہے:
" جو چوپائے سے بدفعلى كرے اسے قتل كر دو، اور چوپايا بھى قتل كر دو "
اور شافعيہ كے ہاں ايك اور قول بھى ہے:
اگر كھايا جانے والا ہو تو اسے ذبح كيا جائيگا، اور اگر كھائے جانے والى جنس ميں سے ہو تو انہوں نے اسے كھانے كى حرمت صراحت سے بيان كى ہے "
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 24 / 33 ).
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اور اگر انسان كسى چوپائے سے بدفعلى كرے تو اسے تعزير لگائى جائيگى، اور جانور قتل كر ديا جائيگا كيونكہ وہ حرام اور مردار ہے.
اور اگر وہ جانور اس كى اپنى ملكيت ہو تو اس كا نقصان ہو گا، اور اگر كسى دوسرے كا ہو تو بدفعلى كرنے والا مالك كو اس كى قيمت ادا كريگا.
اور ايك قول يہ بھى ہے:
جو چوپائے سے بدفعلى كرے اسے قتل كر ديا جائيگا كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" تم جسے چوپائے كے ساتھ بدفعلى كرتے ہوئے پاؤ اسے قتل كر دو، اور چوپايا بھى قتل كر دو "
اور اس عموم سے اہل علم نے يہ اخذ كرتے ہوئے كہا ہے:
چوپائے كى فرج كسى بھى حالت ميں حلال نہيں تو يہ لواطت كى طرح ہو گا.
ليكن يہ حديث ضعيف ہے، اس ليے جب اہل علم كے ہاں يہ حديث ضعيف ٹھرى تو وہ دو چيزوں ميں سے ہلكى اور خفيف كى طرف مائل ہوئے، اور وہ چوپائے كا قتل ہے، ليكن آدمى كو قتل نہيں كيا جائيگا؛ كيونكہ اس كى حرمت زيادہ عظيم ہے، ليكن آدمى كو اس معصيت كى وجہ سے تعزير لگائى جائيگى.
اور عام قاعدہ اور اصول ہے كہ:
ہر اس معصيت و نافرمانى ميں تعزير واجب ہے جس ميں حد نہ ہو، اور نہ ہى كفارہ ہو " انتہى
ماخوذ از: الشرح الممتع ( 14 / 245 ).
اور ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" چوپائے كو قتل كرنے كى علت ميں فقھاء كا اختلاف ہے:
اس ليے قتل كيا جائيگا كہ وہ فاعل كے ليے عار كا باعث ہے، اور جب اسے ديكھےگا تو اسے فعل يا آئيگا.
ابن بطہ سے ان كى سند كے ساتھ مروى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جسے تم چوپائے كے ساتھ بدفعلى كرتے ہوئے پاؤ اسے قتل كر دو، اور چوپائے كو قتل كر دو.
لوگوں نے عرض كيا: اے للہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم چوپائے كا كيا قصور ہے ؟
تو انہوں نے فرمايا:
يہ اور يہ نہ كہا جائے "
اور يہ بھى كہا گيا ہے: تا كہ وہ بدصورت مخلوق نہ جنے.
اور ايك قول يہ بھى ہے: تا كہ كھايا نہ جائے، اور ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما نے بھى علت بيان كرتے ہوئے اسى طرح اشارہ كيا ہے " انتہى
ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 9 / 60 ).
اس سے معلوم ہوا كہ بدفعلى كى گئى بكرى كے دودھ سے فائدہ حاصل نہيں كيا جائيگا، اور نہ ہى اسے چھوڑا جائيگا، بلكہ اسے قتل كر كے اس سے چھٹكارا حاصل كيا جائيگا.
واللہ اعلم .