"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
كيا اسلام ميں سركارى ( غير شرعى عدالت ميں ) شادى جائز ہے ؟
الحمد للہ.
دين اسلام ميں شادى كے كچھ اركان و شروط ہيں اگر يہ اركان اور شروط متوفر ہوں تو يہ شادى صحيح ہو گى.
شادى كے اركان درج ذيل ہيں:
ايجاب و قبول:
ايجاب يہ ہے كہ عورت كا ولى يہ الفاظ كہے: ميں نے فلاں لڑكى يا اپنى بيٹى يا بہن تيرے نكاح ميں دى.
اور قبول يہ ہے كہ: جو لڑكا اس عورت سے شادى كر رہا ہے وہ كہے: ميں نے فلاں لڑكى سے شادى قبول كى.
نكاح كى شروط:
خاوند اور بيوى كى تعيين اور دونوں كى رضامندى كے بعد ولى يا اس كا وكيل دو مسلمان عادل گواہوں كى موجودگى ميں عقد نكاح كرے؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
ابو موسى اشعرى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ولى كے بغير نكاح نہيں ہوتا "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2085 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 1101 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1881 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور امام بيہقى رحمہ اللہ نے عمران اور عائشہ رضى اللہ تعالى عنہما سے ان الفاظ ميں بيان كيا ہے:
" ولى اور دو عادل گواہوں كے بغير نكاح نہيں ہوتا "
علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 7557 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
بعض علماء كرام كہتے ہيں كہ اگر نكاح كا اعلان ہو جائے اور لوگوں كو نكاح كا علم ہو جائے تو پھر دو گواہوں كا كوئى ضرورت نہيں رہتى.
اگر غير شرعى عدالت ميں سركارى نكاح سے نكاح كى توثيق يا رجسٹر كرانا مراد ہے تا كہ حقوق محفوظ رہيں اور ضائع ہونے سے بچ جائيں تو يہ چيز مطلوب ہے، اس ميں كوئى حرج نہيں.
ليكن اگر اس نكاح ميں نكاح كى شروط متوفر نہ ہوں يا پھر ايسا كرنے ميں باطل قسم كى اشياء مرتب ہوتى ہوں جو طلاق وغيرہ سے تعلق ركھے تو پھر ايسا كرنا جائز نہيں ہے.
ليكن اگر نكاح كى توثيق اس كے بغير نہ كرائى سكتى ہو يا پھر انسان ايسا كرنے پر مجبور ہو تو وہ كسى اسلامك سينٹر ميں شرعى نكاح كرا كر اس طرح كى عدالتوں ميں جا كر نكاح كرا سكتا ہے، ليكن وہ يہ عزم ركھے كہ جھگڑے اور اختلاف كى حالت ميں شريعت كے مطابق فيصلہ كرائےگا.
ليكن اسے ان عدالتوں ميں نكاح كراتے وقت ان باطل اور غير شرعى رسم و رواج سے اجتناب كرنا ہوگا جو بعض ممالك ميں نكاح كے وقت كيے جاتے ہيں.
ہمارى يورپى ممالك ميں بسنے والے مسلمانوں گزارش ہے كہ وہ عقد نكاح كے امور كو قانونى طور پر اسلامك سينٹر ميں درج كرانے كى كوشش كريں، اور دوسرے سركارى اداروں كى طرف رجوع مت كريں.
واللہ اعلم .