"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
جى ہاں جب كوئى شخص كسى عورت سے شادى كر لے اور ان دونوں كے بيٹے اور بيٹياں ہوں تود ونوں كے بيٹوں كے ليے دوسرے كى بيٹيوں سے شادى كرنا جائز ہے كيونكہ اس ميں كوئى مانع نہيں ہے.
اب قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" باپ كى بيويوں كى بيٹياں حرام نہيں كيونكہ ( يعنى باپ كى بيوياں ) اس ليے حرام ہوئيں كہ وہ باپوں كى حلائل يعنى بيوياں ہيں، اور يہ ان كى بيٹيوں ميں نہيں پايا جاتا، اور نہ ہى ان ميں كوئى اور ايسى علت پائى جاتى ہے جو انہيں حرام كرنے كا تقاضا كرتى ہو، اس ليے وہ اللہ تعالى كے اس فرمان ميں داخل ہوئيں:
اور ان عورتوں كے علاوہ باقى عورتيں تمہارے ليے حلال كر دى گئى ہيں " انتہى
ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 9 / 525 ).
اور مستقل فتوى كميٹى كے علماء سے درج ذيل سوال كيا گيا:
ايك شخص نے ايك عورت سے شادى كى اور پھر اس عورت نے ايك دوسرے مرد سے شادى كر لى تو اس سے اس كى لڑكى پيدا ہوئى، پھر ماں فوت ہو گئى اور بيٹى باقى بچى، ليكن اس پہلے شخص نے جس نے اس بچى كى ماں سے سے شادى كى تھى نے كسى اور عورت سے شادى كى تو اس سے ايك بيٹا پيدا ہوا اور اس بيٹے نے اس لڑكى سے منگنى كر لى ـ جس عورت سے اس كے والد نے كبھى شادى كى تھى ـ تو اس شادى كا حكم كيا ہو گا ؟
كميٹى كا جواب تھا:
" مذكورہ لڑكے كے ليے مذكورہ لڑكى سے شادى كرنا جائز ہے چاہے اس كے والد نے لڑكى كى ماں سے شادى كى تھى؛ كيونكہ اللہ عزوجل نے حرام كردہ عورتوں كا ذكر كرنے كے بعد فرمايا ہے:
اور اس كے علاوہ دوسرى عورتيں تمہارے ليے حلال كر دى گئى ہيں .
اور يہ لڑكى آيت ميں منصوص حرام كردہ عورتوں ميں شامل نہيں، اور نہ ہى سنت ميں مذكور حرام كردہ عورتوں ميں شامل ہوتى ہے.
اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے.
اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے.
منقول از: فتاوى اسلاميۃ ( 3 / 144 ).
واللہ اعلم .