"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
اول:
صرف عقد نكاح كے ساتھ ہى خاوند اور بيوى ايك دوسرے كے وارث بن جاتے ہيں، اور اگر خاوند يا بيوى ميں سے دخول يعنى رخصتى سے قبل ہى كوئى ايك فوت ہو جائے تو دوسرے كے ليے اس كى وراثت ثابت ہو جائيگى.
ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما سے دريافت كيا گيا كہ: ايك شخص نے عورت سے شادى كى ليكن اس كا مہر مقرر نہ كيا اور نہ ہى اس كى رخصتى ہوئى اور خاوند فوت ہوگيا تو اس كے متعلق حكم كيا ہے ؟
ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما فرمانے لگے:
" اسے مہر مثل ملےگا، يعنى اس كے خاندان كى عورتوں كو جتنا مہر ديا گيا ہے اسے بھى اتنا ہى مہر ملےگا، نہ تو اس ميں كوئى كمى ہو گى اور نہ ہى زيادتى، اور وہ بيوى عدت بھى گزارےگى، اور اس بيوى كو وراثت بھى ملےگى.
تو معقل بن سنان الاشجعى رضى اللہ تعالى عنہ كھڑے ہوئے فرمانے لگے:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بروع بنت واشق جو كہ ہم ميں سے ايك عورت ہے كے متعلق بھى اسى طرح كا فيصلہ كيا تھا جو آپ نے كيا ہے تو عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما بہت خوش ہوئے "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 1145 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے الارواء الغليل حديث نمبر ( 1939 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
لا وكس يعنى كمى نہيں ہوگى، اور ولا شطط يعنى نہ ہى زيادتى ہو گى.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" آيت كے عموم كى بنا پر دخول سے قبل يا بعد خاوند اور بيوى كى وراثت ميں كوئى فرق نہيں، اور اس ليے بھى كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بروع بنت واشق رضى اللہ تعالى عنہا كو وراثت دينے كا فيصلہ ديا تھا، حالانكہ اس كا خاوند دخول سے قبل ہى فوت ہو گيا تھا،اور نہ ہى اس نے اس كا مہر مقرر كيا تھا، اور اس ليے كہ نكاح صحيح اور ثابت ہے تو وہ اس كى وارث بنےگى جيسا كہ دخول كے بعد ہوتا ہے " اھـ
اور ابن قدامہ كا يہ بھى كہنا ہے:
" رہا وارث بننے كا مسئلہ تواس ميں كوئى اختلاف نہيں، كيونكہ اللہ تعالى نے خاوند اور بيوى ميں سے ہر ايك كا فرض حصہ مقرر كر ركھا ہے اور يہاں عقد زوجيت صحيح ثابت ہے، تو اس كى وجہ سے وہ وارث بنےگى؛ كيونكہ يہ نص كے عموم ميں داخل ہے " اھـ
دوم:
سوال ميں مذكور مسئلہ ميں بھائى كسى چيز كے بھى وارث نہيں ہو سكتے، كيونكہ علماء كرام متفق ہيں كہ باپ كى موجودگى ميں بھائى كو وراثت نہيں ملتى.
ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 9 / 6 ).
سوم:
اور اگر كئى ايك بھائى ( يعنى دو يا اس سے زيادہ ) بھائى ہوں تو پھر ماں كو چھٹا حصہ ملےگا، چاہے بھائى وارث ہوں يا وارث نہ ہوں، چاہے مرد ہو يا عورتيں.
اس كى دليل يہ فرمان بارى تعالى ہے:
اور اگر اس كے بھائى ہوں تو اس كى ماں كا چھٹا حصہ ہے النساء ( 11 ).
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اگر ميت كى فرع وارث موجود ہو، يا اس كے كئى ايك بھائى ہوں، يا بہنيں ہوں، يا دونوں ہوں تو ماں كو چھٹا حصہ ملےگا.
كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
اور اس كے ماں اور باپ ميں سے ہر ايك كو مال متروكہ كا چھٹا حصہ ملےگا اگر اس ( ميت ) كى اولاد ہو، اور اگر اس كى اولاد نہ ہو اور اس كے والدين اس كے وارث ہوں تو اس كى ماں كو ايك تہائى ملےگا، اور اگر اس كے بھائى ہوں تو اس كى ماں كا چھٹا حصہ ہے النساء ( 11 ).
اور اس ميں كوئى فرق نہيں كہ بھائى ہوں يا بہنيں، يا دونوں ہى سگے بھائى ہوں يا ماں كى طرف سے يا باپ كى طرف سے، اور نہ ہى اس ميں فرق ہے كہ وہ وارث ہوں يا باپ كى وجہ سے محروم، جيسا كہ آيت كريمہ سے ظاہر ہوتا ہے؛ كيونكہ اللہ تعالى نے والد كے ہوتے ہوئے ماں كے ليے ايك تہائى فرض كيا ہے، پھر فرمايا:
اور اگر اس كے بھائى ہوں تو اس كى ماں كا چھٹا حصہ ہے .
تو يہاں فاء لائى گئى ہے جو كہ دوسرے جملے كو پہلے جملے كے ساتھ مرتبط كرنے اور اس پر بنا كرنے پر دلالت كرتى ہے، اور باپ كى موجودگى ميں بھائى وارث نہيں بنتے، اور اس كے باوجود اس حالت ميں ماں كے ليے چھٹا حصہ مقرر كيا ہے، جمہور علماء كرام كا قول يہى ہے.
اور شيخ الاسلام ابن تيميہ نے يہ اختيار كيا ہے كہ: اگر وہ باپ كى وجہ سے محجوب ہوں تو وہ ماں كے ليے محجوب بن كر اسے چھٹے حصہ تك نہيں لے جائينگے.
اور يہ آيت كے ظاہر كے خلاف ہے اھـ
ديكھيں: تسھيل الفرائض صفحہ نمبر ( 33 ).
اور نيل المآرب ميں كہتے ہيں:
" اور يہ حكم بھائى اور بہن ميں ثابت ہے، اور بھائيوں كا باپ كى موجودگى ميں وارث يا محجوب ہونے ميں ماں كو چھٹے حصہ كى طرف محجوب كرنے ميں كوئى فرق نہيں " اھـ
ديكھيں: نيل المآرب ( 2 / 62 ).
چہارم:
اور اس بنا پر صورت مسئولہ ميں تركہ كى تقسيم درج ذيل طريقہ سے ہوگى:
متوفى كى فرع وارث نہ ہونے كى بنا پر بيوى كو چوتھا حصہ ملےگا اللہ تعالى كا فرمان ہے:
اور ان ( بيويوں ) كے ليے مال متروكہ كا چوتھا حصہ ہے اگر تمہارى اولاد نہ ہو، اور اگر تمہارى اولاد ہو تو تو جو تم نے چھوڑا ہے اس ميں سے ان كا آٹھواں حصہ ہے، اس وصيت كے بعد جو تم نے وصيت كى ہے، يا قرض كى ادائيگى كے بعد النساء ( 12 ).
اور كئى ايك بھائى ہونے كى بنا پر ماں كو چھٹا حصہ ملےگا.
اور باقى مانندہ تركہ باپ لے جائيگا، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" فرضى حصے ان كے حقداروں كو دو، اور جو باقى بچے وہ ميت كے اقرب ترين مرد كو ملےگا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 6732 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1615 ).
اولى يعنى اقرب ترين.
تو اس طرح تركہ برابر برابر بارہ حصوں ميں تقسيم كر كے تين حصے بيوى كو اور ماں كو دو حصے، اور باقى سات حصے باپ كو ديے جائينگے.
واللہ اعلم .