"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
میں ایک کارگو کمپنی میں بطور اکاؤنٹنٹ کام کر رہا ہوں، اور ابھی کچھ عرصہ قبل مجھے علم ہوا ہے کہ میں جس کمپنی میں کام کرتا ہوں یہ اپنے کام کے لیے لوگوں کو رشوت اس لیے دیتی ہے تا کہ کسٹم وغیرہ سے مال جلدی کلیئر ہو جائے، میں اس کمپنی میں اکاؤنٹنٹ ہوں، کمپنی کے مینجر کو میں ہی رقم نکال کر دیتا ہوں تا کہ وہ متعلقہ بندوں کو بطور رشوت دے دے، مجھے اس رشوت کا ابھی علم ہوا ہے پہلے علم نہیں تھا، تو کیا اس کی وجہ سے مجھ پر بھی گناہ ہو گا؟ اور اس صورت حال میں مجھے کیا کرنا چاہیے؟
الحمد للہ.
اول:
رشوت لینا یا دینا دونوں ہی ناجائز عمل ہیں، بلکہ یہ کبیرہ گناہوں میں شامل ہے؛ جیسے کہ امام احمد: (6791) اور ابو داود: (3580) سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے رشوت لینے والے اور رشوت دینے والے دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔ اس حدیث کو علامہ البانی رحمہ اللہ نے ارواء الغلیل: (2621) میں صحیح قرار دیا ہے۔
تاہم اس عمومی بات سے درج ذیل صورتیں مستثنی ہوں گی:
1- اگر حقدار بھی اپنا حق رشوت کے بغیر وصول نہ کر سکے، تو ایسی صورت میں علمائے کرام نے بالکل صراحت کے ساتھ لکھا ہے کہ رشوت لینے والا گناہ گار ہو گا، دینے والے پر گناہ نہیں ہو گا، جیسے کہ ہم اس کی تفصیلات پہلے سوال نمبر: (70516 ) اور (72268 )میں ذکر کر آئے ہیں۔
چنانچہ اگر کارگو کیا ہوا مال پیسہ لگائے بغیر نکلوایا نہیں جا سکتا ، یا ادائیگی نہ کرنے کی صورت میں متعلقہ افراد کا نقصان ہونے کا خدشہ ہو تو اس صورت میں رشوت دینا جائز ہے لیکن پھر بھی یہ رشوت لینے والے کے لیے حرام ہی ہو گی۔
2-ہہونے والے ظلم کو کم یا ختم کرنے کے لیے رشوت دی جائے، تو ایسی صورت میں بھی پیسے دینا جائز ہو گا اس میں حرج نہیں ہے.
3-پیسے کسی ایسے شخص یا سروس فراہم کرنے والے آفس میں جمع کروائے جائیں جو کہ متعلقہ اداروں سے معاملات طے کرے اور سامان کو چھڑوائے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، یہ تو رشوت میں شامل ہی نہیں ہوتا یہ تو کسی کی خدمات کا معاوضہ ہے، اسے کسی کی خدمات اجرت کے عوض لینا کہتے ہیں۔
دوم:
اگر کمپنی کا مینجر آپ سے مذکورہ امور میں سے کسی چیز کے لیے رقم لیتا ہے تو پھر آپ پر کسی قسم کا حرج نہیں ہے کہ آپ اسے درج کریں اور رقم بھی دیں۔
لیکن اگر یہ رقم کسی ممنوع چیز کو چھڑوانے کے لیے استعمال ہوتی ہے، یا ایسی صورت میں بھی ادا کی جاتی ہے جب پیسے دیے بغیر بھی چھڑوانا ممکن ہو اور نقصان دہ تاخیر بھی نہ ہو ، یا کوئی بھی ایسی صورت ہو جو مذکورہ صورتوں کے تحت نہ آتی ہو تو پھر آپ کے لیے جائز نہیں ہے کہ آپ رقم نکال کر دیں یا اسے درج کریں؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ
ترجمہ: نیکی اور تقوی کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون کرو، گناہ اور زیادتی کے کاموں میں باہمی تعاون نہ کرو؛ اور تقوی الہی اپناؤ یقیناً اللہ تعالی سخت عذاب دینے والا ہے۔[المائدۃ: 2]
آپ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ آپ اپنے مینجر سے بات کریں اور انہیں بتلائیں کہ رشوت خوری اور رشوت دینا دونوں ہی حرام ہیں، اور اسی طرح رشوت کے لیے کسی کا تعاون کرنا بھی حرام ہے۔
واضح رہے کہ تقوی الہی اپنانے والے شخص کو اللہ تعالی ہر طرح سے بچاتا بھی ہے اور ہر طرح سے کافی بھی ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالی کے احکامات پر عمل پیرا شخص کو اللہ تعالی اپنا فضل مزید عطا فرماتا ہے، لہذا جب آپ کو علم ہو گیا ہے تو اب حق بات کہنے سے لوگوں سے مت ڈریں ۔
امام احمد : (11030)، ترمذی: (2191) اور ابن ماجہ: (4007) نے سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم خطاب کے لیے کھڑے ہوئے ، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے خطاب میں فرمایا: (متنبہ رہو! حق بات جاننے کے بعد لوگوں کا خوف کسی آدمی کو حق گوئی سے نہ روکے۔) اس حدیث کو علامہ البانی رحمہ اللہ نے صحیح ابن ماجہ میں صحیح قرار دیا ہے۔
اللہ تعالی ہمیں اور آپ کو اپنے محبوب اور اپنی رضا کے موجب کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
واللہ اعلم