ایک عورت کے پاس کچھ رقم تھی جواس نے تعلیمی کام سےجمع کررکھی تھی اوراپنے بھائی کےپاس رکھی تھی ، شادی کے بعد اس نے بھائي سےکہا کہ وہ اسے اپنی تجارت میں شریک کرلے اوراسے اس کا حصہ اسے دیتا رہے ۔
لیکن یہ تجارت کامیاب نہ ہوئي اس بنا پر اس نے وہ مال اپنی بہن کوواپس کردیا ، اس رقم سے خاوند اوربیوی نے ایک گاڑی خریدی کچھ مدت بعد خاوند ملک سے باہر چلا گيا اورخاوند کا بھائي گاڑی استعمال کرتا رہا اوراس نے تقریبا گاڑی کی نصف قیمت ادا کردی ۔
مشکل یہ ہے کہ :
کیا بیوی نےکوئي اسلامی تعلیمات کے مخالف کام کیا ہے کہ اس نے شروع میں ہی اپنے خاوند کواپنی رقم نہیں دی ؟
اورکیا اس پر یہ واجب تھا کہ وہ گاڑی اپنے نام نہ خریدتی بلکہ اسے خاوند کے نام خریدنی چاہیے تھی ؟
کیا اس کے نتیجہ میں اسلامی لحاظ سے ایسا کرنا صحیح ہے کہ خاوند اپنی بیوی کی اساسی ضروریات بھی پوری نہ کرے اورمعاملات میں بھی بیوی کوتنگ کرے ؟
کیا خاوند پر واجب نہيں کہ وہ بیوی اوراولاد کی بنیادی ضروریات کوپورا کرے وہی اس کا مسؤل نہيں ؟
اورکیا ایسا کرنا ( یعنی بیوی اوراولاد کی ضروریات پوری کرنا ) اگروہ ان کا خرچہ برداشت کرتا ہے تویہ اس کی جانب سے صدقہ ہے ؟
الحمد للہ.
بیوی پر لازم نہیں کہ وہ اپنی رقم اورمال خاوند کےحوالے کرے ، کیونکہ یہ اس کی رقم
ہے جواس کی ملکیت ہے ، ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ وہ اس سے تنازل کرتی ہوئي اسے چھوڑ دے
اوراس میں سے کچھ حصہ خاوند کودے یا پھر اپنے بھائي کودے یا کسی اورکو اگروہ ایسا
اپنی مرضی سے کرتی ہے توجائز ہے ۔
اوربیوی پر یہ بھی لازم نہیں کہ وہ اپنی گاڑی خاوند کے نام کروائے ، لیکن اگروہ
اپنا یہ حق معاف کرتی ہے توپھر کوئي حرج نہیں ، نیزاس بنا پر خاوند کے لیے یہ جائز
نہیں کہ وہ اپنی بیوی سے برا سلوک کرے تا کہ وہ اپنا مال اسے دے ، بلکہ اس پر واجب
اورضروری ہے کہ وہ اپنے مال میں سے بیوی اوربچوں پر خرچ کرے اوران کے نان ونفقہ کا
انتظام کرے نہ کہ بیوی کے مال سے ۔
اس پر یہ بھی ضروری ہے کہ وہ دوسری بیویوں کی طرح اس بیوی کے لیے بھی رہائش کا
انتظام کرے اوراسی طرح اولاد کی رہائش کا انتظام بھی اس پر واجب ہے ، اوراگروہ بیوی
بچوں پر خرچ کرنے میں اجر وثواب کی نیت کرے تواللہ تعالی اسے اجر وثواب سے بھی
نوازے گا اگرچہ یہ اس پر واجب ہی ہے ۔
واللہ اعلم .