اسلام سوال و جواب کو عطیات دیں

"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "

منطق پڑھنا

16-11-2008

سوال 119899

اہل علم كى كتابوں كے ساتھ منطق كيوں نہيں پڑھائى جاتى ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

علم منطق ان علوم ميں شامل ہوتا ہے جس كے متعلق سابقہ ادور ميں علماء كرام كے ہاں بہت جدال پيدا رہا ہے، كچھ علماء اس كى تائيد ميں اور كچھ اس كے مخالف رہے ہيں، اس جدال كے اسباب دو قسم كے ہيں، ايك تو تاريخى اور دوسرا وضع اور اس كے ايجاد كا سبب ہے:

1 - اس علم كا واضع اور موجد ارسطو يونانى تھا جس نے ولادت مسيح سے تين سو برس قبل يہ علم وضع كيا، پھر عباسى دور حكومت تقريبا ( 180ہجرى ) ميں اس كا عربى زبان ميں ترجمہ كيا گيا، تو اس طرح اس علم كى نشو ونما يونانى اندھيرے عہد ميں ہوئى جس كے باعث بہت سارے مسلمانوں نے اس علم كو حاصل اور اس پر بھروسہ كرنے ميں شكوك و شبہات اور تردد كيا.

2 - كسى چيز كو ثابت كرنے ميں اس ميں كچھ نہ كچھ حق پايا جاتا ہے، ليكن اس كے مبادى اور قواعد و اصول ميں اكثر باطل بھى پايا جاتا ہے، اور خاص كر نفى كے معاملہ تو بہت زيادہ چنانچہ اس ميں جو كچھ نہ كچھ حق تھا وہ اہل علم كے ليے اس علم قبول كرنے كا باعث تھا، ليكن اس كے ساتھ يہ دعوى رہا كہ اس كى چھان پھٹك كر كے اصلاح كى جائے، اور دوسروں كے ليے يہ انكار اور مكمل و تفصيلى انكار كا باعث بنا.

3 - مفرط قسم كے فلاسفہ كا اسے اپنے كتابوں اور كلام ميں استعمال كرنا، اور اپنے علوم كے ساتھ اسے فاحش قسم كے اختلاط كرنا حتى كہ يہ ان كے اركان ميں سے ايك ركن بن گيا جس كى بنا پر اكثر اہل علم نے اس علم كا انكار كيا اور اسے حرام قرار ديا.

اور انصاف والى تاريخى نظر اس پر دلالت كرتى ہے كہ شروع ميں علماء اسلام كا غالب طور رحجان يہ تھا كہ اس علم كو حاصل نہ كيا جائے، كيونكہ اس ميں جو حق ہے وہ سليم عقلوں ميں مستقر اور موجود ہے، اس ليے اس كے ضبط كے ليے ارسطو كے قواعد كى كوئى ضرورت نہيں، اور باطل كى نفى كرنا اور اسے رد كرنا واجب ہے.

حتى كہ ابو حامد غزالى آيا اور يہ وہ پہلا شخص ہے جس نے اصول فقہ ميں منطق كو داخل كيا، اور اس نے كتاب " المستصفى فى اصول الفقہ " كے طويل مقدمہ ميں اس كى شرح كى، اور جو شخص اس علم كو حاصل نہ كرے اس كے علم ميں شك كيا ـ اگرچہ اس نے اپنى كتاب كے آخر ميں منطق كى مذمت بھى كى ہے ـ اور اس كے بعد اصوليوں اور متكلمين كے درميان مختلف علاقوں ميں پھيل گيا اور منتشر ہوگيا.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

اب تك مسلمان علماء كرام اور آئمہ دين اس كى مذمت كرتے اور اسے حاصل كرنے والوں كى مذمت كرتے ہيں، اور اس علم اور اسے حاصل كرنے والوں سے منع كرتے ہيں، حتى كہ ميں نے متاخرين كے اس كے متعلق فتوى بھى ديكھے ہيں جن ميں اپنے دور كے شافعى اور حنفى آئمہ وغيرہ نے اس كى حرمت اور اہل منطق كى عظيم سزا كى كلام كى ہے، حتى كہ ہم تك مشہور حكايات ميں سے جو حكايت پہنچى ہے كہ:

شيخ ابو عمرو بن صلاح نے معروف مدرسہ ابو الحسن آمدى سے چھين ليا، اور كہا: اس سے علم حاصل كرنا عكا سے حاصل كرنے سے افضل ہے، حالانكہ اس وقت كلاميہ اور فلسفيہ كے علوم ميں آمدى سے زيادہ كوئى زيادہ نہيں جانتا تھا، اور وہ ان ميں اسلام كے لحاظ سے اچھا اور زيادہ پرمثال اعتقاد والا تھا " انتہى

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 9 / 8 ).

اور امام سيوطى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اور منطق ميں خبيث اور مذموم اشياء پائى جاتى ہيں، اور علم منطق حاصل كرنے ميں مشغول ہونا حرام ہے، اس ميں بعض وہ كچھ ہے جو ہيولا قول پر مبنى ہے جو كہ كفر ہے اور يہ فلسفہ اور زنديقيت كى طرف كھينچ كر لے جاتا ہے، اور پھر اس كا اصل ميں كوئى دينى ثمر اور فائدہ نہيں، اور نہ ہى كوئ دنياوى فائدہ ہے، ميں نے جو كچھ بيان كيا ہے وہ سب كچھ آئمہ دين اور علماء شريعت نے بيان كيا ہے.

اس كو سب سے پہلے امام شافعى نے بيان، اور امام الحرمين كے اصحاب نے اور امام غزالى نے آخرى دور ميں بيان كيا، اور كتاب " الشامل " كے مؤلف ابن صباغ، اور ابن قشيرى اور نصر المقدسى اور ابن عبد السلام اور اس كے پوتے اور سلفى اور ابن بندار، اور ابن عساكر اور ابن الاثير اور ابن صلاح اور ابن عبد السلام، اور ابو شامہ، اور امام نووى، اور ابن دقيق العيد اور البرھان الجعبرى، اور ابو حيان اور الشرف الدمياطى، اور امام ذھبى، اور الطيبى اور الملوى، اور الاسنوى، اور الاذرعى، اور الولى العراقى، اور الشرف بن المقرى نے بيان كيا ہے.

اور ہمارے استاد اور شيخ قاضى القضاۃ شرف الدين المناوى نے بھى يہى فتوى ديا ہے، اور مالكى آئمہ ميں سے " الرسالۃ " كے مؤلف ابن ابى زيد اور قاضى ابو بكر بن العربى اور ابو بكر الطرطوشى، اور ابو وليد الباجى، اور " قوت القلوب " كے مؤلف ابو طالب المكى، اور ابو الحسن بن الحصار، اور ابو عامر بن الربيع، اور ابو الحسن بن حبيب، اور ابو حبيب المالقى، اور ابن المنير، اور ابن رشد، اور ابن ابى حمزۃ، اور عام اہل مغرب نے بھى يہى بيان كيا ہے.

اور احناف آئمہ كرام نے بھى يہى بيان كيا ہے جن ميں ابو سعيد السيرافى، اور سراج القزوينى نے اس كى مذمت ميں ايك كتاب لكھى جس كا نام " نصيحۃ المسلم المشفق لمن ابتلى بحب علم المنطق " ركھا.

اور حنبلى آئمہ نے بھى يہى بيان كيا ہے، جن ميں ابن جوزى اور سعد الدين الحارثى، اور تقى الدين ابن تيميہ شامل ہيں، انہوں نے اس كى مذمت ميں ايك صخيم مجلد لكھى اور اس ميں منطق كے قواعد كا توڑ كيا ہے جس كا نام " نصيحۃ ذوى الايمان فى الرد على منطق اليونان " ركھا، اور اس كتاب كا ميں نے اس كے حجم سے تيسرا حصہ ميں اختصار بھى كيا ہے، اور ميں نے منطق كى مذمت ميں ايك مجلد لكھى ہے جس ميں اس سلسلہ ميں آئمہ كرام كى نصوص بيان كى ہيں.

اور اس جاہل كا يہ قول ـ جيسا كہ اس سے دريافت كردہ سوال ميں آيا ہے ـ كہ منطق ہر مسلمان پر فرض عين ہے "

اسے اس كے جواب ميں يہ كہا جائيگا:

علم تفسير، اور علم حديث، اور علم فقہ يہ ايسے علوم ہيں جو سب علوم ميں شرف والے ہيں، اور بالاجماع يہ فرض عين نہيں، بلكہ يہ فرض كفايہ ہيں، تو پھر اس ميں علم منطق كو كيسے زيادہ كيا جا سكتا ہے ؟

ايسى بات كرنے والا يا تو كافر ہے، يا پھر بدعتى يا پاگل جسے كوئى عقل ہى نہيں.

اور اس كا يہ قول:

" اللہ كى توحيد اس كى معرفت پر متوقف ہے "

يہ سب سے بڑا جھوٹ اور بہت بڑا بہتان ہے، اس بنا پر اكثر مسلمانوں كى تكفير لازم آتى ہے، اگر فرض بھى كر ليا جائے كہ منطق فى نفسہ حق ہے، اس ميں كوئى ضرر نہيں، تو بھى توحيد ميں اصلا كوئى فائدہ نہيں ديتا، اور يہ گمان نہ ہو كہ اس ميں صرف وہى فائدہ ديتا ہے جو منطق سے جاہل ہو اسے جانتا نہ ہو، كيونكہ منطق تو كليات پر براہين ہيں، اور خارج ميں كليات كا كوئى وجود نہيں، اور نہ ہى اصل ميں جزء پر دلالت كرتا ہے.

محققون اور منطق كو جاننے والوں نے يہى مقرر كيا ہے " انتہى مختصرا

ديكھيں: الحاوى للفتاوى ( 1 / 255 - 256 ).

ليكن يہ سب كچھ طالب علم كو اس سے منع نہيں كرتا كہ وہ اہل منطق كى كتابوں سے ان كے قواعد و اصول پڑھے، تا كہ وہ منطقيوں كے منہج اور اس كے طريقوں كو جان سكے، اور منطقيوں كى اصطلاحات اور ان كے اساليب سے على وجہ البصيرۃ واقف ہو، اور بعض منطقيوں كے مغالطات كا شكار نہ ہو جائے، اور ان كے پاس جو حق چيز ہے اسے معتدل طريقہ سے جان سكے اور اس پر متنبہ ہو، اور نفع مند علوم كو جمع كر سكے، اور نقصان اور ضرر دہ علوم پر متنبہ ہو كر اجتناب كر سكے، اور اس ميں اسے سب سے پہلے اللہ تعالى سے مدد حاصل كرنى چاہيے اور پھر ماہر اور راسخ و پختہ قسم كے اہل علم سے جو اس علم كو جانتے ہيں، اور اس ميں جو حق و باطل ہے اس كى خبر ركھتے ہوں، مثلا شيخ الاسلام ابن تيميہ، اور علامہ محمد امين شنقيطى رحمہما اللہ، شنقيطى رحمہ اللہ نے اس علم كے قواعد ميں ايك كتاب تاليف كى ہے، جس ميں انہوں نے ہر غلط اور دخل سے اسے صاف كيا ہے جو اكثر پر رائج ہو چكا تھا.

علامہ شنقيطى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جب يہ چيز متوقع تھى كہ حق كے داعى حضرات كو باطل اور گمراہ قسم كے داعيوں كا مقابلہ كرنا پڑيگا، اور ان سے پلا پڑيگا، جو ان كے ساتھ فلسفى شبہات، اور فسطائى قسم كے مقدمات كے ساتھ بحث اور جھگڑا كرينگے، اور يہ لوگ ان باطل دلائل كے ماہر ہونے كى وجہ سے اكثر اوقات حق كو باطل كى صورت ميں ظاہر كرتے، اور باطل كو حق كى صورت ميں، اور جن طلباء كے پاس علم كا اسلحہ اور ہتھيار نہ تھا جو ان كے اس باطل كو ختم كريں اور اس كا توڑ كر سكيں ان ميں سے اكثر كو ساكت اور لاجواب كر ديتے، مسلمانوں پر واجب اور ضرورى تھا كہ وہ اتنا علم حاصل كريں جو باطل كو باطل كرنے اور حق كو حق ثابت كرنے ميں ممد و معاون ہو، اور اس ميں وہ طريقے اور وسائل استعمال كيے جائيں جو لوگوں كے ہاں متعارف ہيں.

اسے يونيورسٹى ـ يعنى اسلامك يونيورسٹى آف مدينہ منورہ ـ نے اس بيڑے كو اٹھاتے ہوئے كليۃ الدعوۃ و اصول الدين ( فيكلٹى آف دعوۃ ) كى بنياد ركھى جس كا كام صرف ايسے داعى تيار كرنا ہے جو حكمت اور موعظہ حسنہ كے ساتھ دعوت و تبليغ كرنے پر قادر ہوں، اور گمراہ قسم كے دعاۃ كو ساكت اور لاجواب كر سكيں، اور ان كے دلائل كو باطل كريں.

اس ليے كليۃ الدعوہ كے نصاب ميں " آداب البحث و المناظرہ ) جيسا مضمون پڑھانے كا فيصلہ كيا گيا، كيونكہ يہ ايسا علم اور فن ہے جس كى تعليم حاصل كرنے والا شخص اپنے مد مقابل كے غلط دلائل كو بيان كر سكتا ہے، اور قائل كرنے والے دلائل كے ساتھ اس كے مسلك اور مذہب كى تصحيح كر سكتا ہے، يا لازم كردہ كو صحيح يا اس كے مخالف كو باطل قرار دے سكتا ہے.

اور يہ تو معلوم ہى ہے كہ وہ مقدمات جن سے دلائل مركب ہوتے ہيں جن سے مناظرے كا ہر فريق حجت پكڑتا ہے اس سے منطقى قياس كى صورت ميں دليل دى جاتى ہے.

اس ليے بحث و مناظرہ كے آداب كى فہم ـ جس طرح چاہيے تھى ـ اس فن منطق پر متوقف ہے جس كى فہم اور سمجھ ضرورى ہے؛ كيونكہ مثلا سائل كو مقدمہ صغرى يا كبرى كى طرف متوجہ كرنا، يا پھر متوسط حد تك بغير تكرار كيے دليل ميں جرح كرنا، يا اس سے نكلنے والى شروط ميں سے كسى شرط كا نہ پايا جانا وغيرہ وہ شخص نہيں سمجھ سكتا جسے فن منطق كى سمجھ نہ ہو.

مدينہ يونيورسٹى نے بحث اور مناظرہ كرنے كے آداب كا مضمون پڑھانے كے ليے ہميں مكلف كيا، اس ليے ايسے نوٹس تيار كرنے ضرورى تھے جو طالب علموں كا مقصد پورا كرے، اس ليے ہم نے يہ نوٹس ( مذكرہ ) تيار كيا، اور ہم نے اس ميں فن منطق كے ان قواعد اور اصول سے ابتدا كى ہے جو بحث اور مناظرہ ميں ضرورى ہيں، اور ہم نے اس ميں صرف اہم اشياء ہى ذكر كى ہيں جو مناظرہ كرنے والے كے ليے ضرورى ہيں.

اور ہم اس ميں وہ منطقى اصول لائے ہيں جو فلسفيانہ عيوب سے خالى ہيں، جن ميں فائدہ ہے اور قطعى طور پر كوئى ضرر اور نقصان نہيں پايا جاتا؛ كيونكہ يہ ان ميں سے ہيں جنہيں علماء اسلام نے فلسيانہ عيوب سے صاف كيا ہے، جيسا كہ ہمارے شيخ المشائخ اور چچا زاد الفيہ كے شارح اور اس كے ساتھ دوسرا منظوم الفيہ جمع كرنے والے علامہ المختار بن بونۃ اپنى منطق كے متعلق نظم ميں كہتے ہيں:

" اگر آپ كہيں كہ اسے نواوى اور ابن صلاح اور راوى سيوطى نے حرام كيا ہے.

تو ہو جواب ميں كہينگے: آپ مخالفين كے اقوال كو اس جگہ ديكھتے ہيں جو فلسفيوں نے تصنيف كى ہے.

ليكن جو اسلام قبول كرنے والوں نے چھان پھٹك كى ہے اسے علماء كے ہاں جاننا ضرورى ہے.

اور الاخضرى كا يہ قول:

ابن صلاح اور نواوى دونوں نے اسے حرام كہا ہے، اور كچھ لوگوں نے كہا ہے اسے ضرور حاصل كرنا چاہيے.

صحيح اور مشہور قول يہ ہے كہ راسخ اور كامل كتاب و سنت كا علم ركھنے والے كے ليے جائز ہے تا كہ وہ صحيح راہ كى راہنمائى كر سكے.

چنانچہ فلسيانہ كلام پر مشتمل منطق باطل ہے، اور يہ بھى معلوم ہونا چاہيے كہ مامون كے دور ميں جب سے فن منطق يونانى زبان سے عربى ميں ترجمہ ہوا ہے، اس ميں وہ منطقى اصطلاحات اور عبارات پائى جاتى تھيں جو صرف وہى سمجھ سكتا تھا جو اس ميں ماہر ہے، اور منطقى جو كچھ باطل لائے ہيں ان كا رد كرنا بھى وہى سمجھ سكتا ہے جو فن منطق ميں ماہر ہو.

متكلمين جو منطقى قياسات ميں شبہ لائے ہيں اس كو رد كرنے ميں معاون بن سكتا ہے، منطقيوں كا خيال ہے كہ كتاب و سنت ميں اللہ تعالى كى ثابت شدہ كئى ايك صفات عقل كے سبب سے منع ہيں؛ كيونكہ باطل بيان كرنے والے كو ساكت اور لاجواب اس طرح كيا جا سكتا ہے دليل بالكل اسى طرح كى ہو جس طرح كى دليل وہ پيش كر رہا ہے، اور جس طريقہ اور ہئيت ميں مدمقابل پيش كر رہا ہے اسى كليہ و جزئيہ ميں پيش كى جائے.

اور بلاشك و شبہ اگر منطق كو عربى زبان ميں نہ ڈھالا جاتا اور مسلمان اسے نہ سيكھتے تو ان كا دين اور عقيدہ اس سے غنى تھا، جس طرح سلف صالح اس سے غنى اور بےپرواہ تھے، ليكن جب اس كا ترجمہ كر ديا گيا اور سيكھا جانے لگا اور كتاب و سنت ميں ثابت شدہ اللہ تعالى كى صفات كى نفى كرنے ميں يہى اكيلے قياسات طريقہ بن گئے، تو مسلمان علماء كے ليے اسے سيكھنا اور اس كا سمجھنا ضرورى ہو گيا تا كہ وہ مدمقابل كے دلائل كا اسى طرح جواب دے سكيں جو انہوں نے صفات كى نفى ميں دليل دى ہے؛ كيونكہ انہى كے دلائل كے ساتھ انہيں ساكت و لاجواب كرنا حق كو منوانے اور باطل كو ختم كرنے كے ليے زيادہ بہتر ہے.

اور آپ يہ بھى علم ركھيں كہ فى حد ذاتہ منطقى قياس جس كے نتائج صحيح ہوں اگر اس كے مقدمات كو صحيح صورت اور طريقہ سے ملايا جائے، اور اس سے پيدا ہونے والى شروط كو مد نظرركھا جائے تو وہ قطعى طور پر صحيح ہے، صرف خلل اس كو ديكھنے اور سمجھنے والے كے اعتبار سے پيدا ہوتا ہے، تو غلطى كر جاتا ہے، اس طرح وہ يہ خيال كرنے لگتا ہے كہ يہ معاملہ لازم ہے، تو اس طرح وہ اپنے خيال ميں اس لازم كى نفى سے ملزوم كى نفى پر استدلال كرتا ہے، حالانكہ فى نفس الامر ان دونوں ميں بالكل تلازم پايا ہى نہيں جاتا " انتہى

ديكھيں: آداب البحث و المناظرۃ ( 503 ).

مزيد آپ سوال نمبر ( 88184 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

واللہ اعلم .

اصول فقہ
اسلام سوال و جواب ویب سائٹ میں دکھائیں۔