"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
ایسے شخص کا حکم کیا ہے جس نے میقات کےبعد اپنی رائے تبدیل کرتے ہوئے حج مفرد کا تلبیہ کہا ؟
الحمد للہ.
الشیخ عبدالعزيز بن عبداللہ بن بازرحمہ اللہ تعالی سے مندرجہ ذیل سوال کیا گيا :
ایک شخص نے حج تمتع کی نیت کی اورمیقات سے گزرجانے کے بعد اپنی رائے تبدیل کرتے ہوئے حج مفرد کا تلبیہ کہا تواس کا حکم کیا ہے اورکیا اس کے ذمہ قربانی ہوگي ؟
فضیلۃ الشیخ رحمہ اللہ تعالی کاجواب تھا :
اس میں حکم مختلف ہے لھذا اگرتواس شخص نے میقات پہنچنے سے قبل یہ نیت کی کہ وہ حج تمتع کرے گا اورمیقات پرپہنچ کراپنی نیت بدل لی اورحج مفرد کا احرام باندھا تواس شخص پرکوئي حرج نہيں اورنہ ہی اس پرفدیہ ہے ۔
لیکن اگر اس نے میقات سے یا پھر میقات سے پہلے ہی عمرہ اورحج دونوں کا تلبیہ کہا اوربعد میں حج مفرد کرنا چاہا تواس کے لیے ایسا کرنا جائز نہیں ، لیکن اس میں کوئي مانع نہیں کہ وہ صرف عمرہ بنا لے ، لیکن اسے صرف حج نہيں بناسکتا ۔
لھذا حج قران صرف حج میں نہيں بدلا جاسکتا ، لیکن صرف عمرہ میں بلاجاسکتا کیونکہ یہ مومن کے لیے زيادہ نرمی کاباعث ہے اوراس لیے بھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام کوبھی اسی کا حکم دیا تھا ، لھذا جب کوئي شخص میقات سے عمرہ اورحج دونوں کا احرام باندھتا ہے اورپھروہ اسے حج مفرد میں بدلنا چاہے تواس کے لیےایساکرنا جائز نہیں ، لیکن اس کے لیے یہ جائزہے کہ وہ اسے عمرہ بنا لے جوکہ افضل بھی ہے ، تواس طرح وہ طواف اورسعی کرنے کےبعد اپنے سرکے بال چھوٹے کروا کرحلال ہوجائے اورپھر بعد میں حج کا احرام باندھ لے تواس طرح وہ متمتع ہوجائے گا ۔ انتھی .