"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
فقھاء كرام اس پر متفق ہيں كہ اگر كوئى شخص مرتد ہو جائے تو ان كا نكاح فسخ ہو جاتا ہے، ليكن يہ ہے كہ كچھ تو فورا نكاح كو فسخ قرار ديتے ہيں، اور كچھ كہتے ہيں كہ عدت گزرنے كے بعد نكاح فسخ ہوگا.
اس ليے اگر عدت كے دوران وہ اسلام كى طرف واپس لوٹ آئے تو ان كا نكاح باقى رہےگا، اور اگر وہ ارتداد پر اصرار كرے اور عدت ختم ہو جائے تو ان كے درميان نكاح فسخ ہو جائيگا.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" ائمہ اربعہ اس پر متفق ہيں كہ خاوند اور بيوى ميں سے كسى ايك كے مرتد ہونے كى صورت ميں نكاح فسخ ہو جائيگا ليكن اگر ارتداد دخول و رخصتى سے قبل ہو تو فورى طور پر نكاح فسخ ہو جائيگا، اور اگر دخول و رخصتى كے بعد مرتد ہو تو امام مالك اور ابو حنيفہ كے نزديك نكاح فورى طور پر فسخ ہو جائيگا، اور امام شافعى كا مسلك ہے كہ عدت كے ختم ہونے تك انتظار كيا جائيگا، اور امام احمد سے دو روايتيں دونوں مسلكوں كے مطابق ہيں " انتہى
ديكھيں: مجموع فتاوى و رسائل ابن عثيمين ( 12 / 116 ).
اور بعض علماء كہتے ہيں ـ اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كا اختيار ہے ـ كہ عدت ختم ہونے كے بعد بيوى اپنے آپ كى مالك ہوگى اگر چاہے تو نكاح فسخ كر لے، اور اگر چاہے تو انتظار كرے ہو سكتا ہے اس كا خاوند اسلام كى طرف واپس آ جائے، تو اسے انتظار كا حق حاصل ہے، ہم بھى يہى آخرى قول اختيار كرتے ہيں، اور ہمارى رائے ہے كہ يہ شرعى دلائل كے زيادہ قريب ہے.
اس كا بيان سوال نمبر ( 21690 ) كے جواب ميں گزر چكا ہے اس كا مطالعہ كريں.
بہر حال كسى بھى قول كے مطابق اس مسئولہ عورت كو حص حاصل ہے كہ وہ جس سے چاہے شادى كر سكتى ہے، كيونكہ ظاہر يہى ہوتا ہے كہ اس كى عدت گزر چكى ہے.
ليكن اسے ايسا سركارى ثبوت حاصل كرنے كى كوشش كرنى چاہيے جس سے طلاق يا نكاح فسخ ہونا ثابت ہو.
ہم اس عورت كو نصيحت كرتے ہيں كہ اپنے علاقے ميں قريب ترين اسلامك سينٹر سے رابطہ كرے، تا كہ اس كے خاوند كے مرتد ہونے كے مسئلہ كو ديكھا جائے اور فسخ نكاح كا معاملہ مكمل ہو.
واللہ اعلم .