اسلام سوال و جواب کو عطیات دیں

"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "

عورت نے ولى كى موجودگى ميں ايجاب و قبول كے بغير نكاح فارم پر دستخط كر ديے

22-03-2010

سوال 126569

تين ماہ قبل ميرى شادى ہوئى اور ميرے عقد نكاح ميں ميرے والدين اور ميرا اور بيوى كا بھائى اور ميرى بيوى اور ميرى بيوى كے والد كا دوست اور ميرى ساس اور نكاح رجسٹرار موجود تھا اور سب بالغ اور شادى پر موافق تھے، بيوى كا والد فوت ہو چكا ہے، ميں اور بيوى دونوں اس عقد نكاح پر ہى رہے اور ہم اس شادى سے راضى تھے، ليكن نكاح رجسٹرار نے بيوى كے ولى كے متعلق نہيں بتايا، جبكہ سب ہمارى شادى پر راضى تھے، ليكن ميں نے سنا ہے كہ ولى تو چچا بنتا ہے، ليكن ميرى بيوى كا چچا وہاں نہيں آسكتا تھا ليكن وہ اس شادى پر موافق تھا، اور باپ كى وفات كے بعد سے وہى ان كے ساتھ صلہ رحمى كرتا رہا ہے.
اور بيوى كا ماموں اور بيوى كا بھائى اس شادى پر موافق بھى تھا اور وہاں حاضر بھى تھا، تو كيا يہ عقد نكاح صحيح ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

نكاح صحيح ہونے ميں شرط يہ ہے كہ نكاح عورت كا ولى يا اس كا وكيل كرے؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" ولى اور دو عادل گواہوں كے بغير نكاح نہيں ہوتا "

اسے امام بيہقى نے عائشہ اور عمران رضى اللہ تعالى عنہما سے روايت كيا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 7557 ) ميں صحيح قرار ديا ہے.

عورت كا ولى اس كا باپ اور پھر اس كا دادا، پھر عورت كا بيٹا ( اگر اس كا بيٹا ہو ) پھر عورت كا سگا بھائى، اور پھر باپ كى طرف سے بھائى، اور پھر ان كے بيٹے پھر چچا اور پھر چچا كي بيٹے پھر باپ كى جانب سے چچا پھر حكمران ولى ہو"

ديكھيں: المغنى ( 9 / 355 ).

اگر لڑكى كا دادا نہ ہو تو پھر اس كا بھائى ولى ہوگا، اور اگر ايك سے زائد بھائى ہوں تو ان ميں سے ايك بھائى شادى كر دے تو صحيح ہے، چاہے وہ ان ميں سے بڑا نہ ہو، ليكن شرط يہ ہے كہ وہ بالغ ہونا چاہيے.

دوم:

نكاح كے اركان جس كے بغير نكاح صحيح نہيں ہوتا ايجاب و قبول شامل ہے، عورت كے ولى يا اس كے وكيل كى جانب سے ايجاب اور خاوند يا اس كے وكيل كى جانب سے قبول ہوگا.

بھائى كہےگا: ميں نے اپنى فلان بہن كا آپ كے ساتھ نكاح كيا اور آپ اسے قبول كرتے ہوئے كہيں: ميں نے قبول كيا.

يا پھر وكيل كہے كہ ميں نے اپنے موكل كى فلان بہن كا فلان كے ساتھ نكاح كيا.

اور آپ كا وكيل كہے: ميں نے اپنے فلان مؤكل كے ليے قبول كى.

امام خرشى مختصر خليل كى شرح ميں كہتے ہيں:

" نكاح كے پانچ اركان ہيں جن ميں ولى بھى شامل ہے اس كے بغير نكاح نہيں ہوتا.. اور اس ميں ولى كى جانب سے ادا كردہ اور خاوند كى جانب سے يا ان دونوں كے وكيل كى جانب سے عقد نكاح كے ايجاب و قبول كى ادائيگى بھى ہے " انتہى

ديكھيں: شرح مختصر خليل ( 3 / 172 ).

اور كشاف القناع ميں درج ہے:

" ايجاب و قبول كے بغير نكاح نہيں ہوتا، ايجاب ولى يا اس كے قائم مقام مثلا وكيل كى جانب سے ادا كردہ الفاظ ہيں " انتہى

ديكھيں: كشاف القناع ( 5 / 37 ).

اس ليے ولى كى موجودگى ميں عورت كا نكاح فارم پر دستخط كرنا ہى كافى نہيں، بلكہ عقد نكاح ولى يا اس كے وكيل كى جانب سے منعقد ہونا ضرورى ہے.

اس بنا پر عقد نكاح دوبارہ كرنا ضرورى ہے، دو گواہوں كى موجودگى ميں بيوى كا بھائى كہے كہ ميں نے اپنى فلان بہن كا تيرے ساتھ نكاح كيا، اور آپ اسے قبول كريں تو اس طرح يہ عقد نكاح صحيح ہوگا.

اور پہلے عقد نكاح ميں جو نكاح فارم مكمل ہو چكا ہے جو نكاح رجسٹر نے لكھا تھا وہى كافى ہے اسے دوبارہ پر كرنا لازم نہيں.

واللہ اعلم .

نکاح کی شرائط
اسلام سوال و جواب ویب سائٹ میں دکھائیں۔