"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
اگر كسى ملازم عورت كا خاوند فوت ہو جائے اور وہاں كى گورنمنٹ كسى قريبى كے فوت ہونے پر تين يوم سے زيادہ چھٹى نہ ديتى ہو تو يہ بيوہ عورت اپنى عدت كس طرح پورى كريگى، كيونكہ اگر وہ شرعى طريقہ سے عدت پورى كرنے كا فيصلہ كرتى ہے تو اسے ملازمت سے نكال ديا جائيگا، اور وہ اپنى معاشى ضروريات كيسے پورى كريگى ؟
الحمد للہ.
" ايسى عورت پر شرعى عدت گزارنا لازم ہے، اور وہ دوران عدت شرعى امور كى پابندى كريگى، ليكن اسے دن كے وقت اپنى ملازمت كے ليے جانا جائز ہے؛ كيونكہ يہ اس كى اہم ضروريات ميں شامل ہوگى.
علماء كرام كا بيان ہے كہ بيوہ عورت عدت كے دوران دن كے وقت اپنى ضروريات كى خاطر گھر سے باہر جا سكتى ہے، اور يہ ملازمت اس كى اہم ضروريات ميں شامل ہے، اور اگر اس كے ليے اسے رات كو بھى جانا پڑے تو ضرورت كى خاطر ملازمت سے نكالے جانے كے خدشہ سے جانا جائز ہوگا.
اگر بيوہ عورت كو اسم لازمت كى محتاج ہو كہ اس كا كوئى ذريعہ معاش نہ ہو تو ملازمت ختم ہونے كى صورت ميں ہونے والا نقصان كسى پر مخفى نہيں ہے.
علماء كرام نے بيوہ عورت كے ليے دوران عدت گھر سے باہر جانے كے جواز كے كئى ايك اسباب بيان كيے ہيں، جس گھر ميں بيوہ عورت كو عدت گزارنا واجب تھى ضرورت كى خاطر وہاں سے باہر جا سكتى ہے، اور ان اسباب ميں كئى ايك اسباب ايسے بھى ہيں جو مجبورى كى حالت ميں ملازمت كرنے سے بھى ہلكے سبب ہيں، اس كى دليل درج ذيل فرمان بارى تعالى ہے:
چنانچہ تم حسب استطاعت اللہ كا تقوى اختيار كرو التغابن ( 16 ).
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جب ميں تمہيں كوئى حكم دوں تو تم اس پر اپنى استطاعت و طاقت كے مطابق عمل كرو " متفق عليہ.
و اللہ تعالى اعلم. انتہى .