"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
رات كو نماز ادا كرنا اور اس ميں دعا مانگنا ان افضل عبادات ميں شامل ہوتا ہے جس كى ايك مسلمان كو حرص ركھنى چاہيے، اللہ سبحانہ و تعالى نے اپنے ان متقى بندوں كى صفات بيان كرتے ہوئے فرمايا جنہوں نے اس كى كرامت اور فضل كو حاصل كيا:
وہ رات كو بہت ہى كم سويا كرتے تھے الذاريات ( 17 ).
شيخ سعدى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" يعنى ان كا رات كے وقت سونا بہت ہى كم ہوتا تھا، اور رات كا اكثر حصہ وہ اپنے رب كے سامنے كھڑے ہو كر گزارا كرتے تھے جس ميں نماز ادا كرتے اور قرآت قرآن اور ذكر اور دعا اور اللہ كے سامنے عاجزى و انكسارى كرتے " انتہى
ديكھيں: تفسير السعدى ( 808 ).
مزيد آپ سوال نمبر ( 50070 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
رہا نماز مسئولہ اور اس مين سات بار آيۃ الكرسى اور سات بار سورۃ فاتحہ آخرى سجدہ ميں پڑھنا تو اس كے متعلق عرض ہے كہ سنت نبويہ ميں ايسى كوئى نماز نہيں ملتى، بلكہ يہ بدعات ميں شمار ہوتى ہے، اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تو ركوع اور سجود ميں قرآن مجيد كى قرآت سے منع كرتے ہوئے فرمايا:
" خبردار مجھے ركوع اور سجدہ كى حالت ميں قرآن مجيد كى قرآت كرنے سے منع كيا گيا ہے، چنانچہ تم ركوع ميں رب عزوجل كى عظمت بيان كيا كرو، اور سجدہ ميں زيادہ سے زيادہ دعا كرنے كى كوشش كرو، اس كى قبوليت كى زيادہ اميد ہے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 479).
يہ اس بات كى دليل ہے كہ نماز مسئولہ من گھڑت ہے اور خود ايجاد كى گئى يہ ادا كرنى جائز نہيں.
ابن رجب حنبلى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اكثر علماء كرام كے ہاں ركوع و سجود ميں قرآت كرنا مكروہ ہے، اور بعض سے تو اس پر اجماع بيان كيا گيا ہے.
اور آيا اس حديث ميں نہى تحريم كے ليے ہے يا كہ نہى تنزيہ ہے ؟ اس ميں اختلاف پايا جاتا ہے.
ابن عبد البر رحمہ اللہ نے اجماع بيان كيا ہے كہ يہ جائز نہيں.
اور امام شافعى اور ہمارے اكثر اصحاب كا مسلك يہ ہے كہ: يہ مكروہ ہے.
اور كيا ايسا كرنے سے نماز باطل ہو جاتى ہے يا نہيں ؟
اس ميں بھى ہمارے اصحاب كے ہاں دو وجہيں ہيں اور اكثر اصحاب كا كہنا ہے كہ اس سے نماز باطل نہيں ہوتى " انتہى
ديكھيں: فتح البارى تاليف ابن رجب ( 6 / 28 ).
اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" علماء اس پر متفق ہيں كہ ركوع اور سجود ميں قرآت كرنى مكروہ ہے، اور اس ميں اختلاف كرتے ہيں كہ آيا ايسا كرنے سے نماز باطل ہو جاتى ہے يا نہيں، اس ميں دو قول ہيں، اور وہ امام احمد كے مسلك ميں دو وجہيں ہيں، اور يہ قرآن مجيد كے شرف اور اس كى تعظيم كى بنا پر ہے كہ عاجزى و انكسارى اور ذل كى حالت ميں قرآن مجيد نہ پڑھا جائے " انتہى
ديكھيں: الفتاوى الكبرى ( 2 / 389 ).
اور الصنعانى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" يہ حديث نماز ميں ركوع اور سجدہ كى حالت ميں قرآن مجيد كى تلاوت كرنے كى حرمت پر دلالتى كرتى ہے؛ كيونكہ اصل ميں نہى حرمت كے ليے ہے " انتہى
ديكھيں: سبل السلام ( 1 / 266 ).
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" نماز كے ليے ركوع اور سجدہ كى حالت ميں قرآن مجيد كى قرآت كرنا جائز نہيں " انتہى
ديكھيں: اللقاء الشہرى ( 1 / 186 ).
اس ليے اس شكل ميں نماز ادا كرنا جائز نہيں.
اور اگر مسلمان شخص كو كوئى ضرورت پيش آ جائے تو اس ميں كوئى حرج نہيں كہ وہ رات كو قيام الليل يا كسى اور وقت ميں نماز ادا كرے اور پھر سجدہ ميں جو چاہے دعا مانگ سكتا ہے، كيونكہ سجدہ كى حالت ميں دعا كرنا دعا كى قبوليت كا زيادہ باعث ہے، اسى ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہميں سجدہ كى حالت ميں دعا كرنے كا حكم ديا ہے، جيسا كہ اوپر بيان ہو چكا ہے.
واللہ اعلم .