"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
اول:
اگر تو سائل كا كا مقصد يہ ہے كہ كسى ايك قبر ميں دو مسلمان ايك دوسرے كے پہلو ميں دفن كيے جائيں، تو ايسا كرنا جائز نہيں؛ كيونكہ ہر مسلمان شخص كو عليحدہ قبر ميں دفن كرنا واجب ہے، ليكن ضرورت كى بنا پر ايك سے زائد كو ايك ہى قبر ميں دفن كيا جا سكتا ہے.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اور ايك ہى قبر ميں بغير كسى ضرورت كے دو ميتوں كو دفن نہيں كيا جائيگا " انتہى
ديكھيں: المغنى ( 2 / 222 ).
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" بالاتفاق مشروع ہے كہ ايك قبر ميں دو مسلمان دفن نہيں كيے جائينگے، بلكہ ہر ايك كے ليے عليحدہ قبر كھودى جائيگى " انتہى
ديكھيں: فتاوى نور على الدرب ( 1 / 337 ).
رہا يہ مسئلہ كہ آيا كوئى ميت كسى دوسرے كے پہلو ميں دفن ہونے كى صورت ميں متاثر ہوتى ہے يا نہيں، دوسرے لفظوں ميں آيا اگر پہلو ميں دفن ميت كو عذاب قبر ہو رہا ہے يا پھر اہل نعمت والا ہونے كى وجہ سے سعادت حاصل كر رہا ہے تو آيا سات والے كو بھى اس كا اثر ہو گا يا نہيں ؟
ہمارے علم كے مطابق تو سننت نبويہ ميں اس كى كوئى دليل نہيں ملتى "
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" يہ مسئلہ نص شرعى كا محتاج ہے اور توقيف كا محتاج ہے؛ كہ اگر پہلو ميں دفن ميت كو عذاب ہو رہا ہے تو اسے بھى اذيت ہوتى ہے، ہمارے علم كے مطابق تو سنت نبويہ ميں اس كى كوئى دليل نہيں، اگرچہ بعض علماء رحمہ اللہ يہ كہتے ہيں كہ:
اگر ساتھ والى ميت كو عذاب ہو رہا ہو تو پہلو ميں دفن ميت كو بھى اذيت ہوتى ہے، اور بعض اوقات اس كے پاس كوئى برا فعل كرنے كى بنا پر بھى اسے اذيت ہوتى ہے، ليكن مجھے تو سنت نبويہ ميں اس كى كوئى دليل نہيں ملى جو اس كى تائيد كرتى ہو "
واللہ تعالى اعلم " انتہى
ديكھيں: فتاوى نور على الدرب ( 1 / 337 ).
اور ابو نعيم كى درج ذيل حديث جو كہ ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اپنے فوت شدگان كو نيك و صالح لوگوں كے درميان دفن كيا كرو، كيونكہ جس طرح برے پڑوسى كى وجہ سے زندہ شخص اذيت محسوس كرتا ہے اسى طرح ميت كے پہلے ميں برے شخص كى بنا پر ميت كو بھى اذيت ہوتى ہے "
الحليۃ ( 6 / 354 ).
يہ حديث موضوع اور من گھڑت ہے، ديكھيں سلسلۃ الاحاديث الضعيفۃ للالبانى حديث نمبر ( 563 ).
اور ابن حبان رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" يہ حديث باطل ہے، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى كلام ميں اس كى كوئى اصل نہيں ملتى " انتہى
ديكھيں: كتاب المجروحين ( 1 / 291 ).
علماء كرام كى ايك جماعت نے صالح اور نيك لوگوں كے پہلو ميں ميت دفن كرنا مستحب قرار ديا ہے، ليكن اس پر سنت نبويہ سے كوئى صريح دليل ذكر نہيں كى، بلكہ يہ صرف بعض احاديث سے استنباط كرتے ہوئے كہا ہے، اسى طرح بعض علماء نے اس كا استنباط درج ذيل حديث سے بھى كيا ہے:
" جب موسى عليہ السلام كى موت كا وقت آيا تو انہوں نے اپنے پروردگار سے سوال كيا كہ وہ انہيں ارض مقدس كے اتنا قريب كر دے جتنى مسافت تك پتھر پھينكا جا سكتا ہو " متفق عليہ.
امام بخارى رحمہ اللہ نے اس حديث پر باب باندھتے ہوئے كہا ہے:
" ارض مقدس وغيرہ ميں دفن ہونا پسند كرنے والے شخص كے متعلق باب " انتہى
ابن بطال رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" موسى عليہ السلام كا اپنے رب سے ارض مقدس كے قريب كرنے كے متعلق سوال كرنے كا معنى يہ ہے كہ ( باقى علم تو اللہ كے پاس ہى ہے واللہ اعلم ) كيونكہ ارض مقدس ميں دفن ہونے كى فضيلت ہے كيونكہ وہاں انبياء اور صالحين دفن ہيں، اس ليے فوتگى ميں ان كا پڑوس اختيار كرنا مستحب ہو، بالكل اسى طرح جس طرح زندگى ميں ان لوگوں كا پڑوس اور قرب ا ختيار كرنا مستحب ہے، اور اس ليے بھى كہ فاضل قسم كے لوگ جگہ بھى افضل ہى اختيار كرتے ہيں، اور وہ افضل اور بہتر لوگوں كى قبروں كى زيارت كرتے ہيں اور ان كے ليے دعا كرتے ہيں " انتہى
ديكھيں: شرح ابن بطال ( 5 / 359 ).
اور امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اس ميں افضل جگہ اور اچھے و مبارك مقام پر دفن ہونے اور صالحين كے مدفن كے قرب كا استحباب پايا جاتا ہے " انتہى
ديكھيں: شرح مسلم ( 15 / 128 ).
اور يہ مخفى نہيں كہ يہ حديث اس مسئلہ ميں صريح نہيں ہے، اور اسى ليے امام بخارى رحمہ اللہ نے اس حديث سے ارض مقدس ميں دفن ہونے كا استحباب اخذ كيا ہے، اور اس سے يہ استنباط نہيں كيا كہ نيك و صالح افراد كے ساتھ دفن ہونا مستحب ہے.
اور پھر كئى ايك سلف اور اہل علم سے نيك و صالح افراد كے ساتھ دفن كرنے كى وصيت وارد ہے.
ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما نے وصيت كى تھى كہ انہيں عثمان بن مظعون رضى اللہ تعالى عنہ كى قبر كے قريب دفن كيا جائے.
ديكھيں: الثقات لابن حبان ( 3 / 208 ).
اور امام بخارى رحمہ اللہ كے ساتھى غالب بن جبريل رحمہ اللہ نے وصيت كى تھى كہ انہيں امام بخارى رحمہ اللہ كے پہلو ميں دفن كيا جائے.
ديكھيں: المتفق و المفترق ( 3 / 201 ).
اور حافظ ابو بكر الخطيب رحمہ اللہ نے وصيت كى تھى كہ انہيں بشر بن الحارث كے پہلو ميں دفن كيا جائے.
ديكھيں: تاريخ دمشق ( 5 / 34 ).
چنانچہ جو شخص ان علماء كى اقتدا كرتے ہوئے كسى نكي و صالح شخص كے پہلو ميں دفن ہونے كى وصيت كرتا ہے تو اس كا انكار نہيں كيا جا سكتا ـ اگرچہ ہميں يقين ہے كہ اسے اس سے كوئى فائدہ نہيں ہو گا ـ كيونكہ سنت نبويہ ميں اس كا كوئى ثبوت نہيں ملتا .
ليكن اتنا ہے كہ جس كا انكار كرنا اور لوگوں كو اس سے روكنا ضرورى ہے وہ يہ كہ: كوئى يہ وصيت مت كرے كہ اسے فلاں جگہ يا فلاں كے پہلو ميں دفن كرے تا كہ وہ اس ميت كى بركت حاصل كر سكے، اور وہ ميت اسے فائدہ دے گى يا پھر اللہ كے ہاں اس كى سفارش كريگى.
يہ سب كچھ غلط ہے اور اس كى كوئى دليل نہيں، اور يہ اعتقاد ركھنا صحيح نہيں، بلكہ ايسا كرنا لوگوں كے ليے برے عمل كا باعث بن سكتا ہے، كيونكہ وہ كسى كى سفارش كا بھروسہ كرنا شروع كر دينگے.
مسلمان پر واجب اور ضرورى يہ ہے كہ وہ موت كى تيارى كرے، اور اچھے و نيك و صالح اعمال كرے جو قبر ميں اس كے ليے انس كا باعث ہونگے.
امام بخارى اور مسلم نے انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہما سے روايت كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ميت كے پيچھے تين چيزيں جاتى ہيں، ان ميں سے دو واپس آ جاتى ہيں اور ايك اس كے ساتھ رہتى ہے: اس كے پيچھے اس كے اہل و عيال اور اس كا مال اور اس كا عمل جاتا ہے، اور اس كا اہل و عيال اور مال واپس آ جاتا ہے، اور اس كے ساتھ اس كا عمل باقى رہ جاتا ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 6514 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2960 ).
اور سلمان رضى اللہ تعالى عنہ فرماتے ہيں:
" يقينا زمين كسى كى بھى تقديس نہيں كرتى، بلكہ انسان كو اس كا عمل مقدس بناتا ہے "
اسے اما مالك نے موطا امام مالك حديث نمبر ( 1500 ) ميں روايت كيا ہے.
چنانچہ آدمى كے عمل برے ہوں تو اسے اچھا پڑوس كوئى فائدہ نہيں ديتا، اور اسى طرح اگر اس كے عمل اچھے ہوں تو اسے برا پڑوس بھى كوئى نقصان ديتا.
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ ہمارا خاتمہ اچھا كرے.
واللہ اعلم .