"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
ايك وقت ايسا بھى آيا كہ اعوذ باللہ اس مدت ميں مجھے اپنے دين پر شك ہونے لگا، ليكن يہ چيز ميرے اندر احساسات سے تجاوز نہ كر سكى، اس مدت كے دوران ہى ميں نے اپنى ايك رشتہ دار لڑكى سے عقد نكاح كيا، اور شرعى طور پر جو امور لازم ہوتے ہيں مثلا نكاح مہر اور منگنى وغيرہ سب امور سرانجام ديے اور نكاح بھى نكاح رجسٹرار كے پاس درج كرايا اور باقى سب شروط نكاح بھى موجود تھيں.
مجھے خدشہ تھا كہ كہيں ميرا نكاح باطل نہ ہو يا پھر اس كے باطل ہونے كا يقين تھا، ليكن بالآخر مجھے اميد ہوئى كہ ميرا ايمان كسى نہ كسى دن واپس ضرور آئيگا، اور الحمد للہ ايمان واپس آ گيا، تو كيا اب مجھے نكاح كى تجديد كرنا ہو گى يا نہيں ؟
الحمد للہ.
اگر تو آپ كو پيدا ہونے والا شك صرف ايك وسوسہ تھا جس پر آپ كا نفس مطمئن نہ ہوا اور نہ ہى اس پر دل راضى تھا اور آپ اس مغلوب كى طرح تھے جس پر غالب ہوا گيا ہو اور آپ اس كا انكار كرتے اور اسے دل سے نكالتے تھے ليكن وسوسہ نہيں نكلا تو يہ آپ كو كوئى ضرر و نقصان نہيں ديگا.
بلكہ آپ كا اسے ناپسند سمجھنا ہى صدق ايمان كى نشانى ہے، جيسا كہ صحيح مسلم ميں ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ:
" كچھ صحابہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئے اور دريافت كرنے لگے كہ: ہم اپنے دل ميں كچھ ايسى بات پاتے ہيں جن كو ہم زبان پر لانا بہت بڑا گناہ سمجھتے ہيں.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: كيا واقعتا تم اسے پاتے ہو ؟
تو انہوں نے عرض كيا: جى ہاں.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: يہى تو صريح ايمان ہے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 132 ).
اور صحيح مسلم ميں عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے وسوسہ كے متعلق دريافت كيا گيا تو آپ نے فرمايا:
" يہ خالص ايمان ہے "
يعنى اسے ناپسند كرتے اور اس كو زبان پر لانا بہت بڑا گناہ سمجھتے ہيں.
امام نووى رحمہ اللہ شرح مسلم ميں كہتے ہيں:
" اس حديث كى شرح اور فقہ يہ ہے كہ:
" قولہ صلى اللہ عليہ وسلم: " يہ صريح اور خالص ايمان ہے "
اس كى كلام كرنے كو بڑا سمجھنا ہى صريح ايمان ہے، كيونكہ اسے بڑا سمجھنا اور اس سے شديد خوف ركھنا اور اس كا عقيدہ ركھنے كى بجائے اس كو زبان پر بھى نہ لانا يہ اسى شخص كو ہو سكتا ہے جس كا ايمان كامل ہو اور اس سے شك و شبہ ختم ہو " انتہى
اور بخارى و مسلم ميں ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تم ميں سے كسى ايك كے پاس شيطان آ كر كہتا ہے: اسے كسى نے پيدا كيا ہے ؟ اسے كس نے پيدا كيا ہے ؟ حتى كہ كہتا ہے: تيرے رب كو كس نے پيدا كيا ؟ جب وہ اس حد تك پہنچ جائے تو اسے اعوذ با اللہ پڑھنى چاہيے اور اس سے رك جانا چاہيے "
اور مسلم كى روايت ميں ہے:
ہميشہ لوگ ايك دوسرے سے سوال كرتے رہيں گے حتى كہ كہ كہا جائيگا: يہ اللہ كى مخلوق ہے جسے اللہ نے پيدا كيا ہے، تو اللہ كو كس نے پيدا كيا ؟ لہذا جو بھى ايسى كوئى چيز پائے تو اسے " آمنت باللہ " كہنا چاہيے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 3276 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 134 ).
لہذا يہ پيدا ہونے والے وسوسے اس كے دين پر اثرانداز نہيں ہوتے، اور نہ ہى عقد نكاح كے وجود كو نقصان ديتے ہيں.
ليكن اگر يہ شك مستقل ہو اور آپ اس كو ناپسند نہ كرتے ہوں، اور نہ ہى اپنے سے دور بھگانے كى كوشش كريں، بلكہ آپ حيرت و گمراہى ميں ہوں تو يہ شك كفر ہو گا اور ملت سے خارج كرنے كا باعث ہوگا، اور اس شك كى موجودگى ميں مسلمان لڑكى كے ساتھ نكاح كرنا صحيح نہيں، كيونكہ كسى مسلمان عورت كا كافر مرد سے نكاح صحيح نہيں.
اور توبہ و استغفار اور اسلام كى طرف رجوع كے بعد تجديد نكاح لازم ہے.
ہم اللہ كا شكر ادا كرتے ہيں كہ اس نے آپ سے اس برائى كو دور كيا، اور آپ پر احسان كرتے ہوئے آپ كو آپ كے دين اور ايمان كى طرف پلٹا ديا.
آپ كو چاہيے تھا كہ آپ اپنے سوال ميں تفصيلا اس شك كے متعلق دريافت كرتے جو آپ كو پيدا ہوا تھا.
اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ كے ايمان و ہدايت اور ثابت قدمى ميں زيادتى فرمائے.
واللہ اعلم .