"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
منگنى شادى كا وعدہ شمار ہوتا ہے، اس ليے دونوں طرف سے جب كوئى مصلحت ديكھے تو كوئى بھى منگنى كو ختم كر سكتا ہے.
مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ہے:
" مرد و عورت كے مابين صرف منگنى كرنے سے ہى عقد نكاح نہيں ہو جاتا، اس ليے مرد اور عورت ميں سے ہر ايك كو حق حاصل ہے كہ جب وہ مصلحت ديكھے تو منگنى ختم كر سكتا ہے، چاہے دوسرا فريق راضى ہو يا راضى نہ ہو " انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 18 / 69 ).
اس ليے اگر يہ لڑكى اپنے منگيتر ميں كوئى نقص يا عيب ديكھے، تو اسے منگنى ختم كرنے كا حق حاصل ہے كہ اس كے ليے كوئى اس سے اچھا رشتہ آ جائے.
يہاں ہم يہ تنبيہ كرنا چاہتے ہيں كہ: كسى مسلمان شخص كے ليے جائز نہيں كہ كسى كى منگنى پر اپنى منگنى كرے، اور نہ ہى اس كے ليے يہ جائز ہے كہ كسى كى منگيتر كو اس كے ليے خراب كرے اور اسے اس سے منگنى توڑنے كى دعوت دے.
كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" كوئى شخص اپنے ( مسلمان ) بھائى كى منگنى پر اپنى منگنى نہ كرے، حتى كہ اس سے پہلے منگنى كرنے والا اسے چھوڑ دے، يا پھر اسے اجازت دے دے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 4848 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1412 ).
امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" يہ احاديث كسى بھائى كى منگنى پر منگنى كرنے كى حرمت ميں واضح دليل ہيں، اور علماء كا اتفاق ہے كہ اگر رشتہ آنے والے شخص كے ساتھ صراحت سے بات پكى ہو چكى ہو اور نہ تو وہ اجازت دے اور نہ ہى چھوڑے تو اس پر منگنى كرنا حرام ہے " انتہى
ديكھيں: شرح مسلم للنووى ( 9 / 197 ).
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ سے ايسے شخص كے بارہ ميں دريافت كيا گيا جس نے كسى دوسرے شخص كى منگنى پر اپنى منگنى كر لى تو كيا يہ جائز ہے ؟
شيخ كا جواب تھا:
صحيح حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" كسى بھى شخص كے ليے حلال نہيں كہ وہ اپنے بھائى كى منگنى پر منگنى كرے "
اس ليے آئمہ اربعہ اس پر متفق ہيں اور ان كے علاوہ دوسرے آئمہ سے بھى اس كى حرمت بيان كى گئى ہے.
صرف ان كاد وسرے شخص كے نكاح كے صحيح ہونے ميں اختلاف ہے:
پہلا قول:
يہ باطل ہے، يہ امام مالك كا قول ہے، اور امام احمد كى ايك روايت.
دوسرا قول:
صحيح ہے، يہ قول ابو حنيفہ شافعى كا قول ہے، اور امام احمد كى دوسرى روايت.
اس بنا پر كہ نكاح سے قبل جو منگنى تھى وہ حرام تھى اسے باطل كہنے والے يہ كہتے ہيں كہ: جب منگنى حرام ہے تو پھر عقد نكاح بالاولى باطل ہوا.
اس ميں كوئى نزاع نہيں كہ ايسا كرنے والا شخص اللہ تعالى اور رسول صلى اللہ عليہ وسلم كا نافرمان ہے، اور معصيت پر علم ہونے كے باوجود اصرار كرنا آدمى كے دين اور اس كے عادل ہونے اور مسلمانوں پر والى بننے ميں جرح و قدح كا باعث ہے " انتہى
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 32 / 7 ).
اس ليے اگر لڑكى كو علم ہے كہ فلان شخص اس كى منگنى كے ليے زيادہ بہتر ہے، اور پہلے شخص سے منگنى ختم كرنے كى صورت ميں دوسرا شخص اس كا رشتہ طلب كريگا، تو پھر پہلى منگنى ختم كرنے ميں كوئى حرج نہيں.
ليكن شرط يہ ہے كہ اس ميں دوسرے شخص كا كوئى دخل نہ ہو كہ وہ پہلى منگنى ختم كرنے پر ابھارے، يا پھر دوسرا شخص منگنى طلب كرے تو اسے پہلى منگنى كا علم ہو.
اور منگنى ختم كرنے سے قبل استخارہ كرنا چاہيے، اور پھر نيا رشتہ قبول كرنے سے قبل بھى استخارہ كرے، اسى طرح لڑكى كو كوئى بھى رشتہ قبول كرنے ميں جلدبازى نہيں كرنى چاہيے بلكہ پہلے وہ اس كے دين اور اخلاق كے بارہ ميں باز پرس كر لے كيونكہ حديث ميں وارد ہے:
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب تمہارے پاس كسى ايسے شخص كا رشتہ آئے جس كے دين اور اخلاق كو تم پسند كرتے ہو تو اس كى شادى كر دو اگر ايسا نہيں كرو گے تو زمين ميں لمبا چوڑا فساد بپا ہو جائيگا "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 1084 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
واللہ اعلم .