"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
اول:
بندے پر اللہ كى جانب سے اولاد ايك بہت بڑى نعمت ہے، اور بندے كى گردن ميں يہ امانت ہے جس كے بارہ ميں اس سے روز قيامت سوال كيا جائيگا، جيسا كہ درج ذيل حديث ميں وارد ہے:
عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ فرماتے ہوئے سنا:
" تم سب ذمہ دار ہو، اور تم سب سے تمہارى ذمہ دارى اور رعايا كے بارہ ميں پوچھا جائيگا تم اس كے جوابدہ ہو، حكمران اپنى رعايا كا ذمہ دار ہے اور اس سے اس كى رعايا كے بارہ ميں پوچھا جائيگا وہ اس كا جوابدہ ہے، اور مرد اپنے گھر والوں كا ذمہ دار ہے اس سے اس كى ذمہ دارى كے بارہ ميں پوچھا جائيگا، اور عورت اپنے خاوند كے گھر كى ذمہ دار ہے اس سے اس كى رعايا اور ذمہ دارى كے بارہ ميں پوچھا جائيگا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 853 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1829 ).
والد پر واجب ہے كہ وہ اپنى اولاد كو ہر برائى اور غلط چيز بچا كر ركھے چاہے وہ مادى ہو يا معنوى، اور اس سب سے اولى يہ ہے كہ بچوں كے دين اور دين پر التزام كو محفوظ كيا جائے.
دوم:
مسلمان كے ليے اصل تو يہى ہے كہ وہ نيكيوں اور برائيوں ميں موازنہ كرے، اور سلبيات اور ايجابيات دونوں ميں مقارنہ كرے، اور پھر جو جانب راجح وہ اس پر عمل كرے.
بلاشك و شبہ سكولوں كى سلبيات بھى ہيں اور ايجابيات بھى، اس ليے سكول كا بچے پر سلبى اثر بھى ہوتا ہے اور ايجابى يعنى بچوں كى تربيت اور پرورش پر منفى اثر بھى ہوتا ہے اور مثبت اثر بھى.
اكثر والدين سكولوں كے سلبى اور منفى اثر كى شكايات ہى كرتے ہيں، اور واقعتا ايسا ہى ہے جو اكثر ديندار گھرانوں كے ليے مشكل ہے اور وہ اس سے دوچار ہيں، ليكن ان سلبيات اور منفى اثرات پر مسلمان كئى ايك امور كے ذريعہ قابو پا سكتا ہے:
ا ـ ان كى حفاظت كے ليے اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا كے ذريعہ مدد مانگى جائے، اور اللہ كے سامنے عاجزى كى جائے اور پھر اولاد كى حفاظت كے ليے دعا تو ايك عظيم ہتھيار اور اسلحہ كى حيثيت ركھتا ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى نے نيك و صالحين كى دعا ذكر كرتے ہوئے فرمايا ہے:
اور وہ لوگ جو يہ كہتے ہيں اے ہمارے رب تو ہميں ہمارى بيويوں اور اولاد سے ہمارى آنكھوں كى ٹھنڈك عطا فرما اور ہميں متقيوں كا امام و پيشوا بنا الفرقان ( 74 ).
اس توضيح كے ساتھ كہ والدين كى اصلاح و نيك ہونے كا اولاد كى اصلاح اور نيك ہونے پر بڑا اثر ہوتا ہے.
جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور رہى ديوار تو يہ دو يتيم بچوں كى تھى جو شہر ميں رہتے تھے، اور اس ديوار كے نيچے ان كا خزانہ تھا، اور ان كا والد نيك و صالح تھا، چنانچہ تيرے پروردگار نے چاہا كہ جب وہ بالغ ہوں تو تيرے پروردگار كى رحمت سے اپنا خزانہ نكال ليں الكھف ( 82 ).
ابن رجب رحمہ اللہ كہتے ہيں:
اللہ تعالى بندے كے نيك ہونے كى وجہ سے اس كى موت كے بعد اس كى اولاد كى حفاظت فرماتا ہے، جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كے اس فرمان ميں كہا گيا ہے:
اور ان دونوں كا والد نيك و صالح تھا .
ان دونوں كى حفاظت والد كے نيك و صالح ہونے كى وجہ سے ہوئى تھى " انتہى
ديكھيں: جامع العلوم و الحكم ( 186 ).
ب ـ والدين كا بچے كى تربيت اور پروش ميں دخل ہو اور صرف انہوں نے سكول پر ہى بچے كو نہ چھوڑ ديا ہو، اس ليے والد كو چاہيے كہ وہ اسے اپنے ساتھ مسجد ميں لے كر جائے اور انہيں حفظ قرآن كى كلاسز ميں داخل كرائے، اور علمى دروس ميں بٹھائے، اور ان كے دلوں ميں دين كى محبت جاگزيں كرے، اور اسى طرح ماں اپنى بيٹيوں كے ساتھ بھى يہى طريقہ اختيار كرے، كيونكہ ماں اور باپ دونوں كے واجبات ميں شامل ہوتا ہے.
ج ـ والد اپنى اولاد كى نگرانى كرے، اور سكول ميں بھى مسلسل نگرانى ركھے، اور اس كے اساتذہ كے ساتھ مل كر نگرانى كرے، اور اسى طرح طلبہ كے ساتھ بھى، اور اس كے ساتھ ساتھ اپنى اولاد كى نرمى كے ساتھ راہنمائى كرے اور انہيں نصيحت بھى كرتا رہے، اور ترغيب و ترھيب كا اسلوب استعمال كرے.
د ـ سركارى سكولوں كى بجائے ان سكولوں اور مدرسوں ميں بچے كو داخل كرے جو اسلامى مدارس اور سكول ہوں اور دينى امور كو اہميت ديتے ہوں، اور اس ميں بھى اسے اچھے سے اچھا سكول اور مدرسہ اختيار كرنا چاہيے، الحمد للہ يہ بہت زيادہ ہيں.
اور اگر والد بچے كى فيس ادا نہيں كر سكتا تو پھر وہ كوئى ايسا مدرسہ اور سكول تلاش كرے جو بہتر ہو اس كے ليے وہ لوگوں سے مشورہ بھى كرے اور دريافت بھى كرے كہ كونسا اچھا سكول اور مدرسہ ہے.
ھـ ـ والدين كوشش كريں اور حرص ركھيں كہ بچہ سكول اور مدرسہ ميں كسى اچھے نيك و صالح طالب علم كو اپنا دوست بنائے، اور اسى طرح محلے ميں بھى كوئى اچھا دوست ہو.
وہ اس طرح كہ مسجد كے ساتھيوں ميں سے يا پھر حفظ قرآن كريم كى كلاس ميں سے يا پھر قابل اعتماد رشتہ دار ميں سے ہو.
و ـ والدين كوشش كريں كہ ان كے اور اولاد كے مابين كوئى خلا نہ ہو، وہ اس طرح كہ مثال كے طور پر اگر كوئى مشكل اور پربلم ہو تو اولاد جلدى سے والدين كے سامنے ركھے، يہ بات تجربہ سے ثابت ہے كہ ايسا ہو تو والدين اور اولاد كے مابين كوئى خلا نہيں ہوتا.
شاہد يہ ہے كہ: سب سے عظيم اور بڑى مسؤليت اور ذمہ دارى اولاد كى ذمہ دارى ہے.
ابن قيم رحمہ اللہ كا قول ہے:
" جس شخص نے اپنى اولاد كو فائدہ اور نفع مند تعليم دلانے ميں كوتاہى سے كام ليا اور اسے ويسے ہى بيكار چھوڑ ديا تو اس نے اولاد كے ساتھ بہت ہى برا سلوك كيا.
اكثر بچوں ميں فساد اور خرابى ان كے باپوں كى كوتاہى كى وجہ سے آتى ہے كہ وہ ان كا خيال نہيں كرتے، اور انہيں تعليم نہيں دلاتے، اور دين كے فرائض اور سنن نہيں سكھاتے، اس طرح انہوں نے اپنى اولاد كو ضائع كر ديا " انتہى
ديكھيں: تحفۃ المودود ( 229 ).
پھر اس كے بعد ہم يہ واضح كرنا چاہتے ہيں كہ اگر انسان اپنے بچوں كو سكول سے ہٹانے پر مجبور ہو جائے تو اصل ميں اسے بچوں كو سكول سے نكالنے سے قبل كوئى مناسب حل نكالنا چاہيے كہ اس سكول كے بدلے كوئى اور سكول تلاش كر ليا جائے تا كہ اولاد ضائع نہ ہو جائے.
خاص كر ہم نے ديكھا ہے كہ جو شخص ورع اختيار كرتے ہوئے سكول كو چھوڑ ديتا ہے اس كى اولاد ضائع ہو كر ٹيلى ويزن ديكھنے يا پھر گليوں ميں گھومنے لگتى ہے، اور وہ جہالت كى نديوں ميں غوطے كھاتے ہوئے جہالت ميں ہى غرق ہو جاتے ہيں.
اور اس كے ساتھ ساتھ ان كا مشغلہ لہو لعب بكثرت ہو جاتا ہے، اور وہ كچھ نہيں كرتے، بلكہ بچوں كو نقصان پہنچنے كى بنا پر والد گنہگار ٹھرتا ہے.
اس ليے ہمارى والد كو نصيحت ہے كہ وہ اپنى اولاد كو سركارى سكول ميں داخل كرانے سے مت روكے، بلكہ اسے چاہيے كہ وہ اس كے منفى اثرات كو ختم كرنے كى كوشش كرے اور حسب استطاعت اس كى سلبيات كا علاج كرنے كى كوشش كرے.
ہم بہن كو بھى نصيحت كرتے ہيں كہ وہ اللہ سے مدد طلب كرتى ہوئى اللہ رب العزت سے دعا كرے اور اس كے ساتھ ساتھ خاوند كے ساتھ بات چيت بھى كرے، اور اس سے مناقشہ اور بحث بڑے نرم رويہ كے ساتھ دليل دے كر كرے تا كہ وہ مطمئن ہو جائے.
اور اسے اپنے خاندان والوں ميں سے عقل و دانش اور خير و صلاح والے شخص سے معاونت حاصل كرنى چاہيے تا كہ وہ اس سے بات چيت كرے.
اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا ہے كہ وہ ہمارى حفاظت فرمائے، كيونكہ اسى سے اميديں وابستہ ہيں، اور ہمارى اولاد كى بھى ہر برائى سے حفاظت فرمائے.
واللہ اعلم .