"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
كسى معين دن كا روزہ ركھنے كى دعوت دينے كا حكم كيا ہے، اور اس دن اجتماعى اور معين دعا كرنے كا حكم كيا ہوگا ( يعنى دعاء كے الفاظ معين كر ديے جائيں )، يا دعا كا وقت متعين كر ديا جائے، مثلا كوئى كہے كہ:
" ہم مكہ مكرمہ كے وقت كے مطابق اتنے بجے فلسطينى يا دوسرے مسلمانوں كى نصرت و مدد كے ليے دعا كريں گے، اور مطالبہ كيا جائے كہ يہ اعلان انٹرنيٹ يا موبائل ميسج كے ذريعہ عام كيا جائے.
الحمد للہ.
نبى صلى اللہ عليہ وسلم اور صحابہ كرام اور ان كے بعد كے دور ميں بھى مسلمانوں پر مصائب آتے رہے ليكن انہوں نے كوئى ايسا وعدہ نہيں كيا كہ وہ فلاں دن روزہ ركھيں گے، اور يہ دعوت دى ہو كہ فلاں دن اتنے بجے كوئى محدود اور مقررہ دعا كى جائيگى.
اس سے يہ معلوم ہوا كہ يہ فعل بدعت ہے، اگر يہ خير ہوتى تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور صحابہ كرام اس ميں ہم سے سبقت لے جاتے.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
رمضان المبارك يا سوموار اور جمعرات كا اجتماعى روزہ ركھنے اور اجتماعى افطارى كرنے پر اتفاق كر لينے كا حكم كيا ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" روزہ ركھنے پر اتفاق كرنے سے كوئى چيز اہم نہيں ہے، ہمارى رائے تو يہ ہے كہ صحابہ كرام تو آپس ميں كبھى سوموار اور جمعرات كا روزہ ركھنے پر اتفاق نہيں كرتے تھے، خدشہ اور خطرہ تو يہ ہے كہ معاملہ اس سے بڑھ كر اس سے شديد شكل اختيار نہ كر جائے، اور پھر صوفيوں كے ساتھ مشابہت نہ ہونے لگے جو سب اكٹھے ہو كر اجتماعى اور معين ذكر كرتے ہيں.
اس ليے نوجوانوں سے كہا جاتا ہے كہ: جس نے بھى كل روزہ ركھا اس كى افطارى فلاں كے ہاں ہوگى، اس ميں كوئى حرج نہيں.
ليكن كسى معين دن كا روزہ ركھنے پر اتفاق كر لينا صحابہ كرام كا طريقہ نہيں ہے، پھر انسان يہ عادت بنا لے كہ اگر كوئى دوسرا شخص اس كے ساتھ روزہ ركھےگا تو وہ بھى روزہ ركھےگا يہ مشكل شمار ہوگى.
سلف صالحين كا طريقہ تو يہ تھا كہ انسان اطاعت ميں روزہ ركھتا چاہے اس كے ساتھ كوئى اور روزہ ركھے يا نہ ركھے " انتہى
ديكھيں: لقاء الباب المفتوح ( 174 / 29 ).
شيخ سے يہ بھى دريافت كيا گيا:
كچھ لوگ اكٹھے ہو كر رمضان المبارك ميں افطارى سے قبل اجتماعى طور پر بعض اذكار اور ماثور دعائيں پڑھتے ہيں كيا ايسا كرنا جائز ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم جمعہ كے دن خطبہ ارشاد فرماتے تو آپ كى آنكھيں سرخ ہو جاتيں اور آپ كى آواز بلند ہو جاتى اور غصہ شديد ہو جاتا اور آپ فرماتے:
" اما بعد: يقينا سب سے بہتر بات اللہ كى كتاب ہے، اور سب سے بہتر طريقہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم كا ہے، اور سب سے برے امور دين ميں نئے ايجاد كردہ ہيں، اور ہر بدعت گمراہى ہے، اور ہر گمراہى آگ ميں ہے "
افطارى كے وقت لوگ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس جمع نہيں ہوتے تھے تا كہ اللہ كا ذكر كريں، يا پھر اجتماعى طور پر بلند آواز سے دعا كريں، بلكہ ہر انسان اپنے گھر والوں كے ساتھ افطارى كرتا اور اپنے ليے اكيلا ہى خفيہ طور پر دعا كرتا جو اس كے اور رب العالمين كے مابين ہوتى.
سائل نے جس عادت كى جانب اشارہ كيا ہے جب وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں نہ تھى تو پھر يہ ان بدعات ميں شامل ہوگى جن سے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اجتناب كرنے كا حكم ديا ہے، اور واضح كيا كہ ہر بدعت گمراہى ہے، اور ہر گمراہى آگ ميں ہے " انتہى
فتاوى نور على الدرب ( 12 / 6 - 7 ).
شيخ عبد الرحمن السحيم سے دريافت كيا گيا كہ:
پچھلے ايام ميں ہميں تسلسل كے ساتھ اى ميل آتى رہيں جس ميں ہم سے يہ مطالبہ كيا جاتا رہا كہ ايك معين دن ميں روزہ ركھيں اور اس دن نماز و قيام كى پابندى كريں تا كہ فلسطين ميں مسلمانوں كى مدد و نصرت ہو، يہ سب كچھ دعاء پر ابھارنے اور حق كى تلقين كے ليے كيا جاتا رہا.
كيا يہ بدعت تو نہيں كہ كچھ لوگ جمع ہو كر ہم ميں سے متفق ہو جائيں كہ ايك معين رات ميں اكٹھے ہو كر كتاب و سنت ميں وارد شدہ دعائيں كريں ؟
شيخ كا جواب تھا:
فلسطينى بھائيوں كى مدد و نصرت كے ليے كوئى نيك و صالح عمل كرنے كے بارہ ميں ميرى رائے تو يہى ہے كہ اصل ميں يہ چيز بدعت ہے جو عيسائي ملكوں سے ہمارے اندر آئى ہے.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ كرام ميں سے ستر قراء كرام كو شہيد كر ديا گيا، ليكن اس كے باوجو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے يہ ثابت نہيں كہ آپ نے ان كے ليے روزہ ركھا ہو يا پھر نماز ادا كى ہو، بلكہ آپ نے اللہ عزوجل سے دعا ضرور فرمائى جيسا كہ صحيح بخارى اور صحيح مسلم ميں مروى ہے.
اسى طرح نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے جنگ موتہ ميں لشكر روانہ كيا اور آپ كو اپنے صحابہ كرام كے شہيد ہونے كا علم بھى ہوا ليكن اس كے باوجود نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے اس طرح كى كوئى بات منقول نہيں.
بلكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا تو طريقہ يہ تھا كہ آپ دعا فرماتے اور بڑى جدوجھد سے دعا كيا كرتے تھے.
اسى طرح نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے جنگ بدر كے دن بھى دعا فرمائى تھى.
اسى طرح جمعہ كے دن خطباء حضرات كا منبروں پر دعا كرنا بھى.
رہا يہ مسئلہ كہ كسى معين رات كے قيام پر متفق ہونا تو اس كے متعلق شريعت ميں كوئى اصل اور دليل نہيں ملتى.
ليكن يہ ہے كہ كوئى ايك شخص قيام كرے تو اسے ديكھ كر دوسرا شخص بھى قيام كرنے لگے اور اس طرح دوسرے لوگ بھى ليكن ان ميں پہلے سے كوئى اتفاق اور وعدہ نہ ہو.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے نماز ادا فرمائى اور آپ كى نماز ميں آپ كے چچا زاد ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بھى شامل ہو گئے.
اسى طرح ايك بار نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نماز ادا كر رہے تھے تو حذيفہ رضى اللہ تعالى عنہ بھى ساتھ شامل ہو گئے اور ايك بار ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہ نے بھى آپ كى نماز ميں اقتدا كرنا شروع كر دى.
يہ سارے واقعات بغير كسى اتفاق اور وعدہ كے تھے اور پہلے سے كوئى اتفاق اور وعدہ نہ تھا.
اسى طرح يہ بھى ہے كہ اگر كوئى شخص نماز ادا كرنے لگے تو اس كى اولاد ميں سے كوئى اس كے ساتھ مل جائے.
يا پھر كسى شخص كے پاس كوئى نيك و صالح شخص سويا ہو تو رات اٹھ كر وہ قيام كرنے لگے تو اس وقت اس كے ساتھ مل كر نماز ادا كرنى جائز ہے.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے باقى راتوں سے جمعہ كى رات كو قيام اور عبادت كے ليے مخصوص كرنے سے منع فرمايا كہ كہيں كوئى يہ نہ گمان كرنے لگے كہ اسے باقى راتوں پر كوئى امتياز حاصل ہے.
ميرے خيال كے مطابق تو اس كى كوئى ضرورت نہيں كہ كسى معين رات كے قيام پر متفق ہوا جائے، بلكہ تم ميں سے ہر كوئى اپنى سہيلى كو يہ نصيحت كرے كہ وہ رات كا قيام كيا كرے اور تہجد كى نماز ادا كرے، اور دعاء ميں مشرق و مغرب ميں بسنے والے كمزور مسلمانوں كى مدد و نصرت طلب كرے " انتہى كچھ كمى و بيشى كے ساتھ.
ماخوذ از: المشكاۃ ويب سائٹ.
ہميں تو يہى ظاہر ہوتا ہے كہ يہ دعوت غير مشروع ہے اور اس ميں شركت نہيں كرنى چاہيے اور نہ ہى اس كى دعوت دينى چاہيے.
مسلمان سے مطلوب يہ ہے كہ وہ اپنے مسلمان بھائيوں كے ليے اللہ سبحانہ و تعالى سے مدد و نصرت كى دعا كرے، ليكن اس كے ليے كوئى وقت محدد نہ كيا جائے، يا پھر اس كے ليے روزہ نہ ركھے جائے.
اللہ سبحانہ و تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ كمزور اور ضعيف مسلمانوں كو نجات دے، اور ظلم و زيادتى كرنے والوں كو ہلاك فرمائے.
واللہ اعلم .