"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
اول:
صحيح دلائل سے ثابت ہوتا ہے كہ عقد نكاح كے صحيح ہونے ميں ولى كا ہونا شرط ہے جيسا كہ درج حديث ميں وارد ہے:
ابو موسى اشعرى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ولى كے بغير نكاح نہيں ہوتا "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2085 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 1101 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1881 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور ايك حديث ميں اس طرح وارد ہے:
عمران اور عائشہ رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ولى اور دو عادل گواہوں كے بغير نكاح نہيں ہوتا "
اسے امام بيہقى نے روايت كيا ہے اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 7557 ) ميں صحيح قرار ديا ہے.
اور ايك حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جس عورت نے بھى ولى كى اجازت كے بغير اپنا نكاح خود كيا تو اس كا نكاح باطل ہے، اس كا نكاح باطل ہے، اس كا نكاح باطل ہے "
مسند احمد حديث نمبر ( 24417 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 2083 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 1102 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 2709 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
جمہور فقھاء مالكيہ شافعى اور حنبلى سب كا مسلك يہى ہے.
اور احناف كے ہاں ولى كے بغير نكاح صحيح ہے، انہوں نے ضعيف دلائل سے استدلائل كيا ہے جو جمہور كے دلائل كا مقابلہ نہيں كر سكتے.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اور ابو حنيفہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
عورت كو اپنا اور كسى دوسرى عورت كا نكاح كرنے كا حق حاصل ہے، اور وہ نكاح ميں وكيل بھى بنا سكتى ہے؛ كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:
اور تم انہيں اپنے خاوندوں سے نكاح كرنے سے مت روكو "
تو يہاں اللہ تعالى نے نكاح كى اضافت عورتوں كى طرف كى ہے، اور انہيں اس سے منع كرنے سے روكا ہے، اور اس ليے بھى كہ يہ خالصتا ان كا حق ہے، اور وہ عورتيں ہي اہل مباشرت ہيں تو يہ نكاح ان سے صحيح ہوا جس طرح كہ وہ اپنى لونڈى فروخت كر سكتى ہے، اور اس ليے بھى كہ جب وہ اپنى لونڈى كو فروخت كرنے كى مالك ہے، تو يہى تصرف اپنے اور اپنے سب فائدوں ميں كر سكتى ہے، تو باقى فائدوں كى بجائے عقد نكاح ميں اس كا بالاولى زيادہ فائدہ ہے ".
ابن قدامہ نے جمہور كے دلائل ذكر كرنے كے بعد احناف كى دليل كا جواب ديتے ہوئے كہا ہے:
" رہى آيت تو اس كے عضل كا معنى يہ ہے كہ اس كى شادى نہ كرنا، يہ اس بات كى دليل ہے كہ اس كا نكاح ولى ہى كريگا، اس كى دليل اس آيت كا شان نزول ہے:
معقل بن يسار رضى اللہ تعالى كے بارہ ميں يہ آيت نازل ہوئى تھى جب انہوں نے اپنى بہن كا نكاح كرنے سے انكار كر ديا تو يہ آيت نازل ہوئى اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں بلايا اور اس كى شادى كر دى، اس كى اضافت اس عورت كى طرف اس ليے كى كہ وہ اس كا محل ہے " انتہى
ديكھيں: المغنى ( 7 / 6 ).
مزيد آپ الموسوعۃ الكويتيۃ ( 41 / 248 ) كا بھى مطالعہ كريں.
اور ان كے قياس كا يہ جواب ديا جائيگا كہ: يہ قياس نص كے مقابلہ ميں ہے، اس ليے نص كے مقابلہ ميں قياس صحيح نہيں، اسے علماء كرام اعبتار كے لحاظ سے فاسد قياس كا نام ديتے ہيں.
اہل علم كے ہاں مسلمہ اور مقررہ قواعد ميں شامل ہے كہ: " نص كے ہوتے ہوئے اجتھاد نہيں ہوتا "
دوم:
اس مسئلہ كو اجتھادى مسئلہ ديكھتے ہوئے، اور يہ كہ اس مسئلہ ميں آئمہ كا اختلاف ہے اسے مدنظر ركھتے ہوئے يہ كہا جاتا ہے: اگر آپ كے علاقے ميں حنفى مسلك پر اعتماد كيا جاتا ہے جيسا كہ انڈيا اور پاكستان وغيرہ ميں ولى كے بغير نكاح كو صحيح قرار ديتے ہيں، اور اسى طرح نكاح كرتے ہيں، تو يہ نكاح صحيح ہے اور ان كے فسخ كا مطالبہ نہيں كيا جائيگا.
ليكن يہ قرآن و حديث كے خلاف ہے اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا واضح فرمان بھى يہى ہے كہ ولى كے بغير نكاح نہيں ہوتا، لہذا آپ ولى اور گواہوں كى موجودگى ميں گھر ميں ہى تجديد نكاح كر ليں.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
اگر حاكم نے اس نكاح كے صحيح ہونے كا حكم لگايا يا پھر اس كا نكاح حاكم نے كيا تو اسے توڑنا جائز نہيں ہے " انتہى
اس بنا پر آپ كو چاہيے كہ آپ اپنے عزيز و اقارب اور علاقے كے لوگوں كو بتائيں كہ نكاح ميں ولى كا ہونا بہت اہميت كا حامل ہے اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے، اور عقد نكاح كے صحيح ہونے كے ليے يہى زيادہ بہتر ہے اور پھر اس طرح اختلاف سے بھى بچا جا سكتا ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے حكم پر بھى عمل ہو جاتا ہے.
اگر آپ كے ہاں حاكم نےاس نكاح كو برقرار ركھا ہے تو دوبارہ نكاح كى ضرورت نہيں.
واللہ اعلم .