"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
ہمارے علم كے مطابق تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے كوئى ايسى حديث نہيں ملتى جو اس منع كرتى ہو، بلكہ يہ ملتا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ضرر و نقصان كے خدشہ سے اسے منع كرنا چاہا ليكن پھر آپ نے منع نہيں فرمايا جيسا كہ صحيح مسلم كى درج ذيل حديث ميں وارد ہے:
جدامۃ بنت وھب اسديہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ انہوں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ فرماتے ہوئے سنا:
" ميں نے غيلہ سے منع كرنے كا ارادہ كيا، حتى كہ مجھے بتايا گيا كہ روم اور فارس ايسا كرتے ہيں؛ ليكن ان كى اولاد كو كوئى نقصان و ضرر نہيں ديتا "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1442 ).
امام نووى رحمہ اللہ اس كى شرح ميں لكھتے ہيں:
" اس حديث ميں وارد " الغيلۃ " سے كيا مراد ہے اس ميں علماء كرام اختلاف كرتے ہيں، اور يہ " الغيل " ہے، امام مالك رحمہ اللہ نے موطا ميں اور اصمعى وغيرہ دوسرے اہل لغت نے كہا ہے كہ:
" الغيلہ يہ ہے كہ خاوند اپنى بيوى سے مجامعت كرے كہ وہ ابھى بچے كو دودھ پلانے كى مدت ميں ہو اور دودھ پلائے.
اور ابن السكيت كہتے ہيں:
" اس سے مراد يہ ہے كہ حاملہ عورت بچے كو دودھ پلائے "
علماء رحمہم اللہ كا كہنا ہے:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس سے منع كرنے كا جو ارادہ كيا تھا اس كا سبب دودھ پيتے بچے كو ضرر و نقصان ہونا تھا.
علماء كہتے ہيں:
" ڈاكٹر اور اطباء حضرات كا كہنا ہے كہ يہ دودھ بيمارى ہے اور عرب اسے ناپسند كرتے اور اس سے بچتے ہيں.
اس حديث ميں الغيلۃ كا جواز پايا جاتا ہے؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس سے منع نہيں فرمايا، اور اس سے منع نہ كرنے كا سبب بھى بتايا ہے " انتہى مختصرا.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:
ميں شادى شدہ ہوں، ابھى پہلے بچے كى عمر دو برس نہيں ہوئى كہ ہمارا دوسرا بچہ بھى ہوگيا ہے، كيا اس ميں كوئى گناہ تو نہيں ؟
كيونكہ آيت كريمہ ميں فرمان بارى تعالى ہے:
اور مائيں اپنى اولاد كو دو برس مكمل دودھ پلائيں ؟
اگر ايك كے بعد مسلسل دوسرا بچہ پيدا ہو جائے تو اس ميں آپ پر كوئى گناہ نہيں؛ بلكہ اللہ تعالى آپ دونوں كو اجروثواب سے نوازےگا؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" تم ايسى عورت سے شادى كرو جو زيادہ پيار و محبت كرنے والى اور زيادہ بچے جنم دينے والى ہو "
يعنى كثرت اولاد والى ہو.
اور رہا اللہ سبحانہ و تعالى درج ذيل فرمان:
اور مائيں اپنى اولاد كو دو برس مكمل دودھ پلائيں البقرۃ ( 233 ).
يہ آيت كثرت اولاد كے منافى نہيں، يعنى حمل كى حالت ميں بھى بچے كے ليے دودھ پينا ممكن ہے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے الغيلۃ يعنى حمل كى حالت ميں دودھ پلانے سے منع كرنے كا ارادہ كيا تھا، ليكن منع نہيں فرمايا، راوى بيان كرتے ہيں كہ پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ديكھا كہ فارسى اور رومى بھى غيلہ كرتے ہيں ليكن يہ ان كى اولاد كو كوئى نقصان و ضرر نہيں ديتا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بھى اس سے منع نہ فرمايا " انتہى
ديكھيں: فتاوى نور على الدرب ( 10 / 495 ).
اس بنا پر حمل كے دوران بچے كو دودھ پلانا جائز ہے؛ ليكن اگر بچے كى صحت كو نقصان و ضرر ہونے كا باعث بنے تو پھر جائز نہيں؛ ليكن اس كے ليے كسى ماہر اور تجربہ كار ذہين طبيب و ڈاكٹر سے مشورہ كيا جائے، لہذا يہ مخصوص حالت ميں منع ہوگا.
واللہ اعلم.
مزيد آپ سوال نمبر ( 21203 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم .