"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
اس ليٹر كے لكھنے سے دو ہفتہ قبل ميرى بيوى فوت ہو گئى اللہ اس پر رحم فرمائے، جب فوت ہوئى تو اس كے ذمہ پچھلے رمضان كے سات روزے تھے كيونكہ ماہوارى آنے كى وجہ سے وہ روزے نہيں ركھ سكى اور فوت ہو گئى، كيا ميں اس كى جانب سے روزے ركھوں يا نہ ؟
يہ علم ميں رہے كہ ميرے ذمہ بھى ايك ماہ كے روزے ہيں جو ميں نے نہيں ركھے كيا پہلے ميں اپنے روزے ركھوں اور پھر بيوى كى جانب سے يا كيا كروں ؟
الحمد للہ.
اگر واقعتا ايسا ہى ہے جيسا سوال ميں بيان ہوا ہے تو آپ كے ذمہ واجب ہے كہ پہلے اپنے روزے ركھيں، اور پھر آپ كے ليے بيوى كى جانب سے روزے ركھنا مشروع ہونگے؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جو شخص فوت ہو جائے اور اس كے ذمہ روزے ہوں تو اس كا ولى اس كى جانب سے روزے ركھے " متفق عليہ.
ولى ميت كا قريبى رشتہ دار ہوتا ہے، اور آپ اس كے قريبى رشتہ دار كى طرح ہيں.
اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے، اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے" انتہى
اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء.
الشيخ عبد العزيز بن عبد اللہ بن باز.
الشيخ عبد العزيز بن عبد اللہ آل شيخ.
الشيخ بكر ابو زيد.