"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
كيا طلاق كى قسم اٹھانى حرام ہے، كيونكہ يہ غير اللہ كى قسم ہے ؟
الحمد للہ.
غير اللہ كى قسم اٹھانى برائى ہے، اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جس نے بھى قسم اٹھانى ہو تو وہ اللہ كى قسم اٹھائے يا پھر خاموش رہے "
اور ايك حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس نے بھى غير اللہ كى قسم اٹھائى اس نے كفر يا شرك كيا "
يہ حديث صحيح ہے.
اور ايك دوسرى حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس نے امانت كى قسم اٹھائى وہ ہم ميں سے نہيں "
اور ايك حديث ميں فرمان نبوى عليہ السلام ہے:
" تم اپنے باپوں اور ماؤں اور شريكوں كى قسم مت اٹھاؤ اور اللہ كى قسم بھى اس وقت اٹھاؤ جب تم سچے ہو "
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا حكم تو يہ ہے كہ غير اللہ كى قسم نہ اٹھائى جائے چاہے وہ كوئى بھى ہو، اس ليے نہ تو نبى صلى اللہ عليہ وسلم كى قسم اٹھانى جائز ہے، اور نہ ہى كعبہ كى اور نہ امانت كى اور نہ ہى كسى شخص كى زندگى كى، اور نہ كسى كے مقام و مرتبہ كى، يہ سب جائز نہيں؛ كيونكہ صحيح احاديث ميں اس كى ممانعت آئى ہے...
مشہور امام ابو عمر بن عبد البر رحمہ اللہ نے اہل علم كا اجماع نقل كيا ہے كہ غير اللہ كى قسم اٹھانى جائز نہيں، اس ليے مسلمانوں كو اس سے اجتناب كرنا چاہيے.
رہى طلاق تو حقيقت ميں يہ قسم نہيں، اگرچہ فقھاء نے اسے قسم كا نام ديا ہے، ليكن يہ اس جنس سے نہيں، طلاق كى قسم كا معنى يہ ہے كہ اس كو كسى وجہ پر معلق كرنا يعنى ابھارنے يا منع كرنے يا تصديق يا تكذيب پر، مثلا اگر كوئى كہے:
اللہ كى قسم ميں نہيں اٹھوں گا، يا اللہ كى قسم ميں فلان سے بات نہيں كرونگا، تو اسے قسم كا نام ديا جاتا ہے.
اور اگر كہے كہ: مجھ پر طلاق ميں كھڑا نہيں ہوؤنگا، يا مجھ پر طلاق ميں فلان سے كلام نہيں كرونگا، تو اسے اس حيثيت سے قسم كہا جاتا ہے، يعنى اس ميں جو ابھارا گيا ہے يا منع كيا گيا ہے يا تصديق يا تكذيب ہے اس كى بنا پر اسے قسم كہا گيا ہے.
اور اس ميں غير اللہ كى قسم نہيں، اس نے تو يہ كہا ہے كہ طلاق كى قسم ميں ايسا نہيں كرونگا، يا طلاق كى قسم ميں فلان سے كلام نہيں كرونگا، تو يہ جائز ہے.
ليكن اگر اس نے كہا كہ:
مجھ پر طلاق ميں فلان سے كلام نہيں كرونگا، يا مجھ پر طلاق تم ايسے ايسے نہيں جاؤگى، يعنى اس كى بيوى، يا مجھ پر طلاق تم ايسے ايسے سفر نہ كرو، تو يہ معلق طلاق ہے، اسے قسم اس ليے كہا جاتا ہے كہ يہ ابھارنے يا منع كرنے يا تصديق يا تكذيب كرنے ميں قسم كے حكم ميں ہے.
اس ميں صحيح يہ ہے كہ اگر اس سے بيوى كو يا اپنے آپ كو روكنا يا كسى دوسرے كو اس چيز سے روكنا مراد ہو جس پر قسم اٹھائى جا رہى تو اس كا حكم قسم والا ہوگا، اور اس ميں قسم كا كفارہ ہے.
اس ميں ہمارے قول كى مخالفت و تناقض نہيں كہ غير اللہ كى قسم جائز نہيں، كيونكہ يہ اور چيز ہے اور وہ اور چيز، چنانچہ غير اللہ كى قسم مثلا كوئى كہے: لات اور عزى كى قسم، اور فلان كى قسم اور فلان كى زندگى كى قسم، تو يہ غير اللہ كى قسم ہے.
ليكن يہ تو معلق طلاق ہے نہ كہ حقيقى معنى ميں غير اللہ كى قسم، ليكن اسے روكنے اور تصديق كرنے اور تكذيب كرنے كے اعتبار سے ايك معنى ميں قسم ہے.
اس ليے اگر وہ كہے كہ: اس پر طلاق وہ فلان سے كلام نہيں كريگا، تو گويا اس نے يہ كہا ہے: اللہ كى قسم ميں فلان سے كلام نہيں كرونگا.
يا پھر يہ كہے: مجھ پر طلاق تم فلاں سے كلام نہيں كرو گى ـ يعنى وہ اپنى بيوى سے مخاطب ہے ـ گويا كہ وہ اسے كہہ رہا ہے كہ اللہ كى قسم تم فلاں سے كلام نہيں كروگى.
اس ليے جب اس طلاق ميں خلل حاصل ہو اور قسم ٹوٹ جائے تو صحيح يہ ہے كہ وہ اپنى قسم كا كفارہ دےگا، يعنى اگر اس نے بيوى يا اپنے آپ كو روكنے كا قصد كيا اور طلاق مقصد نہ تھا تو اسے قسم كا حكم حاصل ہے.
اس نے تو اس چيز سے روكنے كى نيت كى تھى اپنے آپ كو روكنے كى يا پھر اپنى بيوى كو اس فعل سے منع كرنے كى، يا اس كلام سے روكنے كى، تو اس كلام كو بعض اہل علم كے ہاں قسم كا حكم حاصل ہے، اور يہى صحيح ہے، اور اكثر كے نزديك طلاق واقع ہو جاتى ہے.
ليكن اہل علم كى ايك جماعت كے ہاں اس سے طلاق واقع نہيں ہوتى اور صحيح بھى يہى ہے، اور شيخ الاسلام ابن تيميہ اور ابن قيم اور سلف رحمہ اللہ كى ايك جماعت كا اختيار بھى يہى ہے؛ كيونكہ ابھارنے يا منع كرنے يا تصديق و تكذيب كے اعتبار سے اسے قسم كا معنى حاصل ہے.
اور اسے غير اللہ كى قسم كى تحريم كا معنى حاصل نہيں كيونكہ يہ غير اللہ كى قسم نہيں، بلكہ يہ تو تعليق يعنى معلق كرنا ہے، اس ليے ان دونوں ميں فرق كرنا چاہيے. واللہ اعلم " انتہى
فضيلۃ الشيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ.