"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
محترم سائل بھائی!
اللہ تعالی آپکو جزائے خیر سے نوازے، اور برکتیں عطا کرے، اور آپکو علمی و اخلاقی میدان میں کامیابیاں دے، اور ہم آپکو حدیث میں وارد ایک عظیم فضیلت سنا کر خوشخبری سنانا چاہے گےکہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (سات لوگ ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالی اپنے عرش کا سایہ نصیب فرمائے گا، جس دن اسکے سائے کے علاوہ کسی کا سایہ نہیں ہوگا) ان میں سے ایک : (وہ نوجوان جو اپنے رب کی عبادت میں پروان چڑھا) بخاری (629) ومسلم (1031)
اور آپکو نصیحتیں کرنے کیلئے متعدد امور ہیں:
1- میرے بھائی ! شادی سکون، اطمینان، اور راحت کا باعث ہے، یہی دنیا کا بہترین ساز وسامان ہے، اور شادی میں اللہ کی طرف سے لوگوں کیلئے نشانی بھی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
(وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجاً لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً إِنَّ فِي ذَلِكَ لآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ)
ترجمہ: اور اسکی نشانیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس نے تمہاری ہی جانوں سے تمہارے لیے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی۔ غوروفکر کرنے والوں کے لئے اس میں کئی نشانیاں ہیں الروم/21
شادی انسان کیلئے باعث سعادت ہے، جیسا کہ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ابن آدم کی سعادت اور بد بختی کیلئے تین تین چیزیں ہیں، باعث سعادت اشیاء میں: نیک بیوی، اچھا گھر، اور اچھی سواری ہے، جبکہ بد بختی کیلئے تین اشیاء میں : بُری بیوی، برا گھر، اور بری سواری ہے) اسے احمد نے (1/168) روایت کیا ہے، اور البانی رحمہ اللہ نے "صحيح الترغيب" (2/192) میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔
اسی طرح عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (دنیا نفع اٹھانے کی چیز کا نام ہے، اور بہترین نفع اٹھانے کی چیز نیک بیوی ہے)اسے مسلم (1467) نے روایت کیا ہے۔
2- شادی سے انسان کا دین مکمل ہوتا ہے، جیسا کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جس شخص کو اللہ تعالی نیک صالح بیوی عطا کردے تو اللہ تعالی نے اسکے دین کا ایک حصہ مکمل کرنے میں تعاون کیا ہے، اب اسے چاہئے کہ دین کے دوسرے حصے میں اللہ سے ڈرے) اسے طبرانی نے "الأوسط" (1/294) میں اور حاكم نے "مستدرك" (2/175) میں روایت کیا ہے۔
ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں: (جب انسان شادی کرلے تو اسکے دین کا آدھا حصہ مکمل ہوجاتا ہے، اب اسے چاہئے کہ باقی حصہ میں اللہ سے ڈرے)
مزید تفصیل کیلئے دیکھیں: "السلسلة الصحيحة" (625)
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ شادی انسان کو زنا سے بچاتی ہے، چنانچہ انسان شادی کے ذریعے گناہوں کے دو دروازوں میں سے ایک دروازے کو بند کر لیتا ہے، اور یہ دروازہ شرمگاہ کا دروازہ ہے، جبکہ دوسرا دروازہ زبان ہے، لہذا اس حدیث میں انسان کو اللہ تعالی کی نعمتوں کے بارے میں یاد دہانی کروائی گئی ہے، کہ ایک حصہ مکمل ہوچکا ہے، اور دوسرے حصہ کے بارے میں تقوی الہی کی نصیحت کی گئی ہے۔
جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی متعدد احادیث میں شرمگاہ اور زبان کو یکجا بیان کیا گیا ہے، اسی مناسبت سے علمائے کرام کا فہم بھی اسی بات کی غمازی کرتا ہے، اور انہیں احادیث میں سے سہل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جو شخص مجھے اپنی دونوں ٹانگوں کے درمیان [شرمگاہ] اور دونوں جبڑوں کے درمیان[زبان] کی ضمانت دے دے میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں) بخاری (6109)
چنانچہ یہ بات ذہن نشین رہے کہ اللہ تعالی نے آپ پر بہت بڑا انعام کیا ہے کہ اس نے شادی اور پاکدامنی کی آپکو توفیق دی، اب آپ اپنی زبان کے بارے میں اللہ سے ڈریں، اور زبان کو چغلی، غیبت، گالی گلوچ، اور لعن طعن سے محفوظ رکھیں، اپنی زبان کو اللہ کا قرب حاصل کرنے کیلئے استعمال کریں، قرآن مجید کی تلاوت ، کثرت سے تسبیح ، دعائیں، اور اذکار کا اہتمام کریں۔
3- اپنی شادی کو بھر پور انداز میں باسعادت بنانے کیلئے شادی سے پہلے ، بعد، اور شادی کے دوران نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء بھی انتہائی ضروری ہے، چنانچہ شادی سے پہلے نبوی تعلیمات یہ ہیں کہ:
ا- دیندار خاتون کی تلاش کریں، جیسے کہ حدیث میں ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: (عورت سے شادی چار چیزوں کی بنیاد پر کی جاتی ہے: مال، حسب نسب، خوبصورتی، اور دینداری، چنانچہ تم دیندار کو پا لو، تمہارے ہاتھ خاک آلود کردے گی) بخاری (4802) ومسلم (1466)
دیندار لڑکی کی صفات کے بارے میں آگہی حاصل کرنے کیلئے سوال نمبر (96584) کا جواب ملاحظہ فرمائیں۔
اس میں کوئی حرج والی بات نہیں کہ لڑکی کچھ نہ کچھ خوبصورت بھی ہو، چنانچہ اس بارے میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےپوچھا گیا، کونسی خواتین بہتر ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: (جسے دیکھ کر اسکا خاوند خوش ہوجائے، اور کوئی حکم دے تو اطاعت کرے، اور اپنے [بناؤ سنگھارکے]بارے میں خاوند کی مخالفت نہ کرے، اور خاوند کا مال سلیقے سے برتے)
اسے أحمد (2/251) نے روایت کیا ہے، اور البانی نے "السلسلة الصحيحة" (1838) میں اسے حسن قرار دیا ہے۔
فقہ حنبلی کی کتاب "شرح منتهى الإرادات" (2/621) میں ہے کہ :
"خوبصورت بیوی حاصل کرنا بھی سنت ہے؛ کیونکہ خوبصورت بیوی دلی سکون، کامل محبت، اور آنکھوں کو زیادہ محفوظ بنا سکتی ہے، اسی لئے نکاح سے پہلے لڑکی کو دیکھنے کی اجازت دی گئی ہے"
مزید تفصیل کیلئے سوال نمبر (83777) کا جواب ملاحظہ کریں۔
اسی طرح بیوی محبت کرنے والی اور زیادہ بچے جننے والی ہونی چاہئے جیسے کہ معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (محبت اور زیادہ بچے جننے والی خواتین سے شادی کرو، کیونکہ تمہاری کثرت کی بنا پر ہی میں سابقہ امتوں کے مقابلہ میں فخر کروں گا)
اسے أبو داود (2050) اور نسائی (3227) نے روایت کیا ہےاور البانی نے "سنن أبو داود" میں صحیح قرار دیا ہے۔
اس حدیث کی شرح سوال نمبر (32668) کے جواب میں ملاحظہ فرمائیں۔
ب- اور نکاح کے وقت-یعنی شادی کی رات-: آپ کوشش کریں کہ ازدواجی زندگی کی ابتدا بغیر کسی معصیتِ الہی کےہو، چنانچہ گانے بجانے، خواتین و حضرات کے اختلاط، اور فضول خرچی جیسے شادیوں میں عموما پائے جانے والے گناہوں سے یکسر دور رہیں۔
اس رات بھی آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے انداز کو اپنائیں جیسے کہ مثال کے طور پر : ہمبستری سے قبل بیوی کے ساتھ خوش مزاجی اور محبت بھری باتیں کریں، سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے مسنون دعا پڑھیں، وغیرہ وغیرہ۔
شادی سے متعلق تمام آداب سے آگہی کیلئے آپ شیخ البانی رحمہ اللہ کی کتاب "آداب زفاف" ملاحظہ فرمائیں۔
ج- جبکہ شادی کے بعد : آپ کوشش کریں کہ بیوی کے ساتھ نرمی، حسن خلق کے ساتھ پیش آئیں، اسکے حقوق ادا کریں، تکلیف مت دیں، اور دینی معاملات میں جہاں اسے سیکھنے کی ضرورت پیش آئے آپ انکی راہنمائی کریں۔
چنانچہ عمر و بن الاحوص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حجۃ الوداع کے موقعہ پر کہتے ہوئے سنا: (غور سے سنو! خواتین کے بارے میں حسن سلوک کی وصیت مجھ سے لے لو، یقینا وہ تمہاری مدد گار ہیں)
اسے ترمذی (1163) نے روایت کیا اور صحیح قرار دیا، اسی طرح ابن ماجہ (1851) نے بھی روایت کیا ہے، جبکہ البانی رحمہ اللہ نے "سنن أبو داود"میں اسے حسن کہا ہے۔
اسی طرح عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہل وعیال کیلئے بہتر ہو، اور میں اپنے اہل وعیال کیلئے تم سے بہتر ہوں)
اسے ترمذی ( 3895 ) نے روایت کیا، اور البانی نے "سنن الترمذی" میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔
آپ کے ذمہ بیوی کے مزید حقوق جاننے کیلئے سوال نمبر (10680)کا جواب ملاحظہ فرمائیں۔
ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ آپکو دین ودنیا کے ہر معاملے پر آپکی مدد کرنے والی نیک صالح بیوی عطا فرمائے۔
واللہ اعلم .