"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
مرد پر واجب ہے كہ وہ اپنى كو مہر خوشدلى و رضامندى سے ادا كرے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور تم عورتوں كو ان كے مہر خوشدلى كے ساتھ ادا كرو النساء ( 4 ).
شيخ سعدى رحمہ اللہ اس كى تفسير ميں كہتے ہيں:
" نحلۃ " يعنى خوشدلى و رضامندى كے ساتھ اور اطمنان قلب كى حالت ميں، نہ تو تم مہر ادا كرنے ميں ٹال مٹول سے كام لو، اور نہ ہى اس ميں كچھ كمى كرو " انتہى
اور ابن كثير رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" ان كى كلام كا مضمون يہ ہے كہ: آدمى كے ليے اپنى بيوى كو اس كا مہر ادا كرنا حتمى واجب ہے، اور اسے خوشدلى و رضامندى كے ساتھ ادا كرنا چاہيے " انتہى
ديكھيں: تفسير ابن كثير ( 2 / 213 ).
آپ نے جو سونا بيوى كو پيش كيا ہے جب آپ نے بيوى سے اس ميں كسى چيز كا اتفاق نہيں كيا تو كيا يہ مہر شمار ہو گا يا نہيں ؟
اس ميں معاشرے كے اندر معروف عادت كو ديكھا جائيگا اگر تو لوگ اسے مہر كا حصہ شمار كرتے ہيں تو پھر يہ مہر كا حصہ ہے، اوراگر وہ اسے ہديہ و تحفہ شمار كرتے ہيں تو پھر يہ تحفہ و ہديہ ہى ہوگا.
شيخ عبد الرزاق عفيفى رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
خاوند جو سونا اپنى بيوى كو ديتا ہے اس كے بارہ ميں كيا حكم ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" خاوند نے اپنى بيوى كو جو سونا ديا ہے وہ بيوى كا حق ہے، اور اگر اس ميں كوئى اتفاق نہيں ہوا تو خاوند سونے كے علاوہ مہر ادا كريگا، اور سونا ہديہ شمار كيا جائيگا " انتہى
ديكھيں: فتاوى الشيخ عبد الرزاق عفيفى صفحہ ( 216 ).
رہا آپ كا اس سونے كے متعلق مہر ميں شامل كرنے كى نيت كرنا تو جب آپ نے معاشرے ميں موجود عرف كى مخالفت كى ہے تو اس نيت سے حكم ميں كوئى فرق نہيں پڑے گا.
آخر ميں ہم آپ كو يہ نصيحت كرتے ہيں كہ آپ معافى و درگزر اور حسن معاشرت پر اعتماد كرتے ہوئے مہر كے معاملہ ميں بيوى يا اپنے سسرال والوں كے ساتھ سختى و تشدد مت كريں، اور آپ مت بھوليں كہ وہ تو آپ كى خالہ كى بيٹى ہے.
اگرچہ وہ مستحق نہ بھى ہو تو آپ كا اسے باقى مانندہ مہر ادا كرنا بيوى اور بيوى كے گھر والوں كے ساتھ حسن سلوك اور صلہ رحمى ہو گى، اور نيكى كہلائيگى، اميد ہے ايسا كرنے سے آپ ميں ہميشہ حسن معاشرت قائم رہے.
واللہ اعلم .