"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
آدمى كے ليے داڑھى منڈانا اور كٹوانا حرام ہے؛ كيونكہ داڑھى ركھنے كے سنت نبويہ ميں بہت دلائل پائے جاتے ہيں.
آپ تفصيل كے ليے سوال نمبر ( 110462 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
اور پھر مومن پر واجب ہے كہ وہ اللہ سبحانہ و تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كے حكم كے سامنے سرخم تسليم كرے، اور اسے تسليم كرنے ميں اس كے دل ميں كوئى تنگى اور حرج نہيں ہونا چاہيے، جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
تيرے پروردگار كى قسم يہ اس وقت تك مومن ہى نہيں ہو سكتے جب تك يہ آپس كے تمام اختلاف ميں آپ كو حاكم نہ مان ليں، پھر جو فيصلہ آپ ان ميں كر ديں ان سے اپنے دل ميں كسى طرح كى تنگى اور ناخوشى نہ پائيں، اور فرمانبردارى كے ساتھ قبول كر ليں النساء ( 65 ).
اور ايك دوسرے مقام پر اللہ رب العزت كا فرمان ہے:
اور كسى بھى مومن مر اور مومن عورت كو اللہ تعالى اور اس كے رسول كے فيصلہ كے بعد اپنے كسى امر كا كوئى اختيار باقى نہيں رہتا، ( ياد ركھو ) اللہ تعالى اور اس كے رسول كى جو بھى نافرمانى كريگا وہ صريح گمراہى ميں پڑےگا الاحزاب ( 36 ).
آپ نے داڑھى ركھ كر اچھا عمل كيا ہے، ہم اللہ كا شكر ادا كرتے ہيں كہ اس نے آپ كو اس كى توفيق و ہدايت نصيب فرمائى.
ہمارى آپ كى عزيز بيوى كو يہ نصيحت ہے كہ وہ اسے بڑى خوشى و راحت اور پورے شرح صدر كے ساتھ قبول كرے اور اسے علم ہونا چاہيے كہ اللہ سبحانہ كى شريعت پر عمل كرنے ميں ہى خير و بھلائى اور كاميابى و نجات ہے، اور جو شخص پورى داڑھى ركھتا ہے اس نے تو سيد ولد آدم نبى صلى اللہ عليہ وسلم اور ان سے پہلے انبياء كى مشابہت اختيار كى ہے، اور صحابہ كرام اور تابعين اور ان كے بعد اہل خير و فضل كے ساتھ شباہت اختيار كى، كيونكہ داڑھى كا منڈانا تو ان آخرى ايام ميں ظاہر ہوا ہے پہلے تو مسلمانوں ميں يہ چيز نہ تھى.
اور اسے قبول كرنے جو چيز اس كى معاون ہو سكتى ہے وہ يہ ہے كہ آپ كى بيوى كو علم ہونا چاہيے كہ اللہ سبحانہ و تعالى اپنے بندوں كو آزمائش كے ليے تنگى اور فراخى سے جو چاہے ديتا ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور ہم بطريق امتحان تم ميں سے ہر ايك كو برائى بھلائى ميں مبتلا كرتے ہيں، اور تم سب ہمارى طرف لوٹائے جاؤ گے الانبياء ( 35 ).
تو اگر وہ داڑھى سے متنفر ہوتى ہے، يا پھر داڑھى كے ساتھ اسے خاوند اچھا نہيں لگتا تو اسے اس پر صبر كرنا چاہيے كيونكہ اس پر ان شاء اللہ اسے اجروثواب ہوگا، اور اسے اتنا ہى كافى ہے كہ اس كے خاوند نے اپنے پروردگار اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كے حكم كى پيروى كى ہے.
رہا مسئلہ اس كے طلاق طلب كرنے كا تو يہ حلال نہيں ہاں اگر اس كا كوئى معتبر سبب موجود ہو تو پھر جائز ہے؛ كيونكہ ابو داود اور ترمذى اور ابن ماجہ ميں حديث مروى ہے:
ثوبان رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس عورت نے بھى اپنے خاوند سے بغير كسى تنگى كے طلاق طلب كى تو اس پر جنت كى خوشبو حرام ہے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2226 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 1187 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2055 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اس شديد قسم كى وعيد سے ہر مسلمان شخص كو ڈرنا چاہيے، اور اس كے ليے بغير كسى ضرورت كے طلاق طلب كرنے ميں اسے مانع بنانا چاہيے.
ہم آپ دونوں كو نصيحت كرتے ہيں كہ آپ حسن معاشرت سے ازدواجى زندگى بسر كريں، اور آپس ميں رشتہ دارى كا بھى خيال كريں، اور كثرت سے دعاء كريں، كيونكہ دل تو اللہ سبحانہ و تعالى كى انگليوں كے درميان ہيں وہ جس طرح چاہتا ہے انہيں گھما ديتا ہے.
اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ كے حالات كى اصلاح فرمائے اور آپ دونوں كو خير و بھلائى كى توفيق نصيب كرے.
واللہ اعلم .