"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
صف برابر كرنى واجب ہے اس كى دليل مندرجہ ذيل حديث ہے:
نعمان بن بشير رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تم اپنى صفيں سيدھى كيا كرو، وگرنہ اللہ تعالى تمہارے مابين اختلاف ڈال دے گا "
صحيح بخارى كتاب الاذان حديث نمبر ( 676 ).
اور اگر امام اور ايك مقتدى ہو تو امام مقتدى كے برابر كھڑا ہوگا اس سے آگے نہيں، كيونكہ حديث ميں ہے كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عبد اللہ بن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كو اپنے پيچھے سر سے پكڑ كر اپنى دائيں جانب كھڑا كيا"
اور يہ منقول نہيں كہ انہيں اپنے سے كچھ پيچھے كھڑا كيا تھا، پھر امام اور مقتدى كى صف شمار ہوتى ہے، اور اگر ہم اسے صف شمار كرتے ہيں تو پھر صف سيدھى اور برابر كرنا مشروع ہے، اور صف اس وقت سيدھى ہو جب برابر كھڑا ہوا جائے، نہ كہ آگے پيچھے كھڑا ہونے سے.
ديكھيں: الشرح الممتع لابن عثيمين ( 3 / 10 - 12 ).
امام احمد رحمہ اللہ تعالى نے مسند احمد ميں ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے روايت كيا ہے كہ:
" ميں رات كے آخر ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آيا اور ان كے پيچھے كھڑا ہو كر نماز ادا كرنے لگا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ميرا ہاتھ پكڑ كر كھينچا اور اپنے برابر كھڑا كر ديا، جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نماز ميں مشغول ہو گئے تو ميں پيچھے كھسك گيا، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم جب نماز سے فارغ ہوئے تو مجھے كہنے لگے: تجھے كيا ہے، ميں تمہيں اپنے برابر كرتا اور تم پيچھے كھسك جاتے تھے ؟
تو ميں نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كيا كسى كو يہ زيبا ديتا ہے كہ وہ آپ كے برابر كھڑا ہو كر نماز ادا كرے، اور پھر آپ تو اس اللہ كے رسول ہيں جس نے آپ كو عطا كيا ....... "
مسند احمد حديث نمبر ( 2902 ).
علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے السلسلۃ الصحيحۃ حديث نمبر ( 2590 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: اس ميں ايك اہم فقھى فائدہ پايا جاتا ہے وہ يہ كہ: سنت يہ ہے كہ نماز ميں ايك مقتدى امام كے دائيں برابر كھڑا ہو كر امام كى اقتدا ميں نماز ادا كرے، نہ تو امام سے آگے ہو اور نہ ہى اس سے پيچھے، بعض مذاہب كے خلاف جو يہ كہتے ہيں كہ مقتدى امام سے تھوڑا پيچھے كھڑا ہو، اس طرح كہ مقتدى كے پاؤں كى انگلياں امام كى ايڑيوں كے برابر ہوں، جيسا كہ آپ ديكھ رہے ہيں يہ اس صحيح حديث كے خلاف ہے. اھـ
ديكھيں: السلسۃالاحاديث الصحيحۃ ( 6 / 174 ).
اللہ تعالى ہى زيادہ علم ركھتا ہے، اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے.
واللہ اعلم .