"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
اس مسئلہ ميں اشكال ہے، اور بعض معاصر علماء كرام نے تو بالجزم اسے جائز قرار ديا ہے؛ كيونكہ كاغذ سكہ نہيں، اور كچھ دوسرے علمائے كرام كا كہنا ہے كہ يہ حرام ہے، كيونكہ كاغذ كے نوٹ لوگوں كے ہاں رائج ہيں اور يہ چاندى كے قائم مقام ہيں، لہذا حكم ميں اسى سے ملحق ہيں.
ليكن ميں ابھى تك ان دونوں قولوں ميں سے كسى ايك پر بھى مطمئن نہيں ہو سكا، ميرى رائے ہے كہ احتياط اسى ميں ہے كہ ايسا نہ كيا جائے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جس ميں تمہيں شك ہو اسے ترك كر بغير شك والى چيز كى طرف منتقل ہو جاؤ "
اور ايك دوسرى حديث ميں فرمان نبوى ہے:
" جو شبھات سے بچ گيا اس نے اپنے دين اور عزت دونوں كو محفوظ كر ركھا "
اور ايك حديث ميں فرمايا:
" اخلاق حسنہ نيكى ہے، اور برائى وہ ہے جو تيرے دل ميں كھٹكے، اور تجھے يا ناپسند ہو كہ لوگوں كو اس كى خبر ہو "
اس بنا پراس جيسے مسئلہ ميں احتياط اسى ميں ہے كہ چاندى ( سكہ ) كو كسى دوسرى جنس مثلا سونا يا اس كے علاوہ كسى اور جنس سے فروخت كيا جائے اور پھر اس سے كاغذ كے نوٹ خريدے جائيں، اور اگر نوٹوں والا شخص سكے لينا چاہے تو كاغذ كو سونے وغيرہ كے بدلے فروخت كرے اور پھر اس سے مطلوبہ چاندى كے سكے خريدے .