"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
عورت کے لیے جائز نہیں کہ وہ خاوند سے اس کی دوسری بیوی کی طلاق کا مطالبہ کرے :
ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( کسی بھی عورت کے لیے حلال نہیں کہ اپنی بہن کی طلاق کا مطالبہ کرے تا کہ اس کے برتن کوفارغ کرکے خود نکاح کرلے ، بلکہ اس کے مقدر میں جوکچھ ہے وہ اسے ملے گا ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 5144 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1413 ) مندرجہ بالا الفاظ صحیح بخای کے ہیں ۔
اورایک روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے کہ عورت اپنی بہن کی طلاق کی شرط رکھے ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 2577 ) ۔
امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے اس حدیث کے لیے باب باندھتے ہوئے کہا کہ نکاح میں ناجائز شروط کا باب ۔
ا – حافظ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی کا قول ہے :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم میں ہے کہ عورت اگر اپنی سوکن کی طلاق کی شرط رکھے تویہ باطل ہے ، اوراس کا پورا کرنا واجب نہیں ۔ ا ھـ دیکھیں زاد المعاد لابن قیم ( 5 / 107 ) ۔
ب – حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی کہت ہيں :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ حلال نہیں ، اس میں اس شرط کے حرام ہونے کی دلیل ہے ، اوراسے اس پر محمول کیا جائے گا کہ اگر کوئي ایسا سبب نہ ہو تواسے جائز قرار دے توپھر حرام ہے ، مثلا اسے جائز کے لیے یہ سبب ہوسکتا ہے کہ عورت کے بارہ میں شک ہو کہ وہ خاوند کی عصمت میں رہتی ہوئي شادی چل نہيں سکے گی ۔
اورپھر یہ بھی بطور نصیحت ہو نہ کہ بطور شرط ، یا پھر اسے خاوند سے کوئي نقصان ہو ، یا خاوند کواس سے نقصان ہو تو ۔۔۔ ابن بطال رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
حلال کی نفی کرنے سے تحریم کی صراحت ہورہی ہے ، لیکن اس سے فسخ نکاح لازم نہیں ہوتا ، بلکہ یہ توعورت پر سختی ہے کہ وہ اپنی دوسری بہن کی طلاق کا مطالبہ نہ کرے ، اوراسے اللہ تعالی کی تقسیم پر راضي ہونا چاہیۓ ۔اھـ ۔ دیکھیں فتح الباری ( 9 / 27 ) ۔
ج – امام نووی رحمہ اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں :
اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ اجنبی عورت کومنع کیا گيا ہے کہ وہ شادی کرنے کے لیے دوسری بیوی کے خاوند سے اس کی طلاق کا مطالبہ کرے ، اور مطلقہ کی جگہ خود اس سے شادی کرکے اس کا نفقہ اور معاشرت وغیرہ حاصل کرے ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مجازی طور پر برتن خالی کرنے سے تعبیر کیا ہے ۔ ا ھـ دیکھیں شرح مسلم للنووی ( 9 / 193 ) ۔
تواس بنا پر پہلی بیوی کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے خاوند سے آپ کی طلاق کا مطالبہ کرے ، اورجوکچھ وہ کہتی ہے اس کی طرف متوجہ نہ ہوں ، آپ کے علم میں ہونا چاہیے کہ یہ سب کچھ اس غیرت کی وجہ سے ہے جوعورت میں عمومی طور پر پائي جاتی ہے ، بلکہ یہ تو سب سے افضل عورتوں میں بھی پائي جاتی تھی جوکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں اورامہات المومنین ہیں ، تویہ غیرت ایک طبعی چيز ہے ۔
دوم :
اوراس نے جوکچھ آپ پر احسانات کیے ہیں اس پر تووہ اللہ تعالی کے ہاں ماجور ہے ، لیکن اس کی وجہ سے اس کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے خاوند سے آپ کی طلاق کا مطالبہ کرتی پھرے ۔
آپ صبر وتحمل سے کام لیں ، اوراس کے معاملہ سے تجاھل سے کام لیتے ہوئے منہ پھیر لیں ، اور اپنی استطاعت کے مطابق اس سے احسان اوراچھا برتاؤ کریں ، اورپہلی بیوی کوبھی یہ علم ہونا چاہیے کہ اس کے لیے اللہ تعالی نے جوکچھ مقدر میں لکھ دیا ہے وہ مل کر رہے گا جیسا کہ بخاری کی راویت کردہ حدیث کے آخری حصہ میں بھی بیان کیا گيا ہے ۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی کہتے ہيں :
اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فرمان کواس قول پر ختم کیا ، بلکہ اس کے لیے توجو اس کے مقدر میں ہے وہ اسے ملے گا ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اگراس نے اس کا مطالبہ کیا اوراس پر اصرار کیا اوریہ شرط رکھی تو وہ واقع نہیں ہوگی لیکن وہی ہوگا جو اللہ تعالی نے مقدر کردیا ہے ۔ دیکھیں فتح الباری ( 9 / 275 )۔
واللہ اعلم .