"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
ايسے مريض شخص كے ليے جو روزہ ركھنے سے عاجز ہو يا پھر جس شخص كو روزہ ركھنے كى بنا پر بيمار ہونے كا خدشہ ہو يا مرض بڑھ جانےكاخدشہ ہو تو اس كے ليے روزہ چھوڑنے كى شرعا رخصت ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور جو كوئى مريض ہو يا مسافر تو وہ دوسرے ايام ميں گنتى پورى كرے البقرۃ ( 185 ).
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اور وہ صحيح شخص جسے خدشہ ہوكہ روزہ ركھنے سے بيمار ہو جائيگا، مثلا وہ مريض جسے بيمارى كے زائد ہونے كا خدشہ ہو تو اس كے ليے روزہ چھوڑنا مباح ہے؛ كيونكہ مريض كے ليے روزہ چھوڑنا ہى مباح اس ليےكيا گيا ہے كہ كہيں روزہ ركھنے سے بيمارى بڑھ نہ جائے يا لمبى نہ ہو جائے، لہذا بيمارى كى تجديد بھى بيمارى كےمعنى ميں ہى ہوگى " انتہى
ديكھيں: مغنى ابن قدامہ ( 4 / 403 ).
اور زيلعى رحمہ اللہ كا كہنا ہے:
" اور وہ صحيح وتندرست شخص جسے روزے كى بنا پر بيمار ہونے كا خدشہ ہو وہ بھى مريض كى طرح ہے " انتہى
ديكھيں: تبيين الحقائق ( 1 / 333 ).
اس بنا پر اگر آپ كے ليے روزہ ركھنا يقينى طور پر بيمارى كا باعث بنتا ہے يا جسمانى طور پر كمزورى كا باعث بنتا ہے تو آپ كے اس حالت ميں روزہ چھوڑنے كى رخصت ہے، اور جب روزہ ركھنے كى قدرت ہو اس كى قضاء كر ليں.
اور اس چيز كا اندازہ لگانے كے ليے كہ آيا يہ يقينى طور پر نقصاندہ ہے يا نہيں آپ قابل اعتماد ڈاكٹر حضرات سے رجوع كريں.
ليكن يہ كہ روزے كى بنا پر صرف تھكاوٹ اور كچھ كمزورى كا احساس پايا جانا روزہ چھوڑنے كے ليے كوئى عذر نہيں ہے، كيونكہ روزہ اورخاص كر گرمى كےطويل ايام ميں روزہ ركھنا مشقت سے خالى نہيں ہو سكتا.
اہل علم نے بيان كيا ہے كہ شديد مشقت كا كام كرنے والے لوگ روزہ ركھيں گے ليكن اگر روزے كى حالت ميں انہيں شديد پياس يا بھوك لگے جس سے ضرر اور نقصان كا انديشہ ہو تو ان كے ليے روزہ توڑنا جائز ہوگا، اور وہ اس روزہ كى بعد ميں قضاء كريں گے.
آپ كو علم ہونا چاہيے كہ تعليم اور ملازمت كرنا روزہ چھوڑنےكے ليے كوئى عذر نہيں ہے، كيونكہ رمضان المبارك كے روزے ركھنا تو دين اسلام كا ايك ركن اور دين كے عظيم فرائض ميں شامل ہوتا ہے.
اس ليے مسلمان كے ليے اس ركن كى ادائيگى ميں سستى اور كاہلى سے كام لينا جائز نہيں كہ وہ اسے چھوڑ كرتعليم يا ملازمت اور كام كرے جس كى اسے كوئى مجبورى نہيں اور اس سے استغناء ممكن ہے.
مزيد فائدہ كے ليے آپ سوال نمبر ( 43772 ) اور ( 65803 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم .