"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
مجھے نظام انہضام کی شکایت ہے اور میرا علاج دو ماہ سے ایک عیسائی معالج کے پاس جاری ہے ؛ پہلے مجھے اس کے علاوہ کسی اور معالج کا علم نہیں تھا، اب مجھے ایک مسلمان معالج کا علم ہوا ہے تو کیا میں عیسائی معالج کے پاس دوا کا کورس چھوڑ کر مسلمان معالج سے علاج کرواؤں؟ یا پھر میں عیسائی معالج کے پاس علاج مکمل کروا سکتا ہوں؟
الحمد للہ.
اگر عیسائی معالج معتمد، امانتدار، اور اپنے طبی شعبے کا ماہر ہے اور آپ نے ان کے پاس علاج شروع کیا ہوا ہے اور آپ کو اس سے افاقہ بھی ہے تو پھر اس کے پاس علاج مکمل کروانے میں کوئی حرج نہیں ہے، آپ پر لازم نہیں ہے کہ اسے چھوڑ کر مسلمان معالج سے علاج کروائیں۔
کیونکہ طبی ماہر اگرچہ مسلمان نہ بھی ہو تو وہ آپ کا وقت، دولت اور محنت سب کچھ بچا دے گا، اور ایسا ممکن ہے کہ اللہ تعالی اس کے ہاتھوں سے آپ کی شفا لکھ دے۔
مسلمان قدیم زمانے سے لے کر آج تک طبی ماہرین سے معاونت لیتے آئے ہیں چاہے وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہوں۔
جیسے کہ ابن مقری اپنی معجم : (352) میں مبارک بن سعید سے بیان کرتے ہیں کہ:
"جس وقت سفیان ثوری نے زہد اپنایا تو ہمیں لگا کہ آپ بیمار ہو گئے ہیں ، تو ہم نے ایک بوتل میں ان کا پیشاب لیا اور ایک عیسائی طبیب کے پاس لے گئے، تو اس نے کہا: آپ کا بندہ بیمار نہیں ہے ، یہ شخص بہت زیادہ خوف میں مبتلا ہے اور یہ کسی راہب کا ہی پیشاب ہو سکتا ہے۔"
اسی طرح مروذی کہتے ہیں:
"میں نے ایک عیسائی معالج کو دیکھا کہ وہ امام احمد کے پاس سے ایک راہب کے ہمراہ نکل کر جا رہا تھا، تو اس نے بتلایا: انہوں نے مجھے کہا تھا کہ میں ان کے ساتھ ابو عبد اللہ [امام احمد کی کنیت] کو چیک کرنے چلوں۔"
"سير أعلام النبلاء" (11/211)
ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے عبد اللہ بن اریقط دؤلی کو ہجرت کے وقت بطور رہبر اجرت پر اپنے ساتھ لیا تھا حالانکہ وہ کافر تھا، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ طب، آنکھوں کے علاج ، ادویات، کتابت، منشی گری اور دیگر ایسی خدمات جن میں ایسی ذمہ داری ہو جہاں ایمانیات کا دخل نہ ہو تو ایسی تمام ذمہ داریوں میں ان سے خدمات حاصل کی جا سکتی ہیں۔ چنانچہ کسی کے محض کافر ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسے کسی بھی جگہ میں معتمد نہ سمجھا جائے؛ کیونکہ ہجرت جیسے سفر میں کسی غیر مسلم کو رہنما کے طور پر رکھنے جیسا کوئی خطرناک عمل نہیں ہو سکتا۔" ختم شد
"بدائع الفوائد" (3/725)
ابن مفلح رحمہ اللہ نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے بیان کیا ہے کہ:
"اگر کوئی یہودی یا عیسائی طبی ماہر ہو اور انسان کا اس پر اعتماد بھی بنا ہو تو پھر اس کے پاس علاج کروا سکتا ہے، اسی طرح یہ جائز ہے کہ اس کے پاس اپنی دولت بطور امانت رکھے اور اس سے لین دین بھی کر سکتا ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَمِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ مَنْ إنْ تَأْمَنْهُ بِقِنْطَارٍ يُؤَدِّهِ إلَيْكَ وَمِنْهُمْ مَنْ إنْ تَأْمَنْهُ بِدِينَارٍ لَا يُؤَدِّهِ إلَيْكَ
ترجمہ: اہل کتاب میں سے کوئی ایسا بھی ہے جن میں سے کسی کے پاس آپ خزانہ امانت میں رکھوائیں تو وہ آپ کو واپس لوٹا دے گا، اور کوئی ایسا بھی ہے جنہیں آپ ایک دینار بھی امانت رکھوائیں تو وہ آپ کو واپس نہیں لوٹائے گا۔[آل عمران: 75]
اور جب ایسا ممکن ہو کہ کسی مسلمان معالج سے علاج کروائے یا مسلمان کے پاس امانت رکھے یا مسلمان سے تجارتی لین دین کرے تو پھر کسی اور کی طرف جانا مناسب نہیں ہے، لیکن اگر کسی اہل کتاب سے علاج کروانے پر مجبور ہو یا اسی کے پاس ہی امانت رکھوا سکتا ہو تو پھر اس کے لیے گنجائش ہے بشرطیکہ یہ یہودی اور عیسائی کے ساتھ ممنوعہ دوستی میں شامل نہ ہو، اور اگر ساتھ میں اس اہل کتاب کو دین اسلام کی دعوت بھی اچھے طریقے سے دے تو یہ بہترین عمل ہے۔" مختصراً ختم شد
"الآداب الشرعية" (3/76)
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
کیا کسی مسلمان عورت کے لیے کسی عیسائی عورت کے پاس علاج معالجہ کروانا جائز ہے؟
تو انہوں نے جواب دیا:
"اگر مسلمان عورت کو اس پر اعتماد ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے راستے کی رہنمائی کے لیے مکہ سے مدینہ ہجرت کے وقت ایک مشرک شخص کی خدمات اجرت پر حاصل کی تھیں اسے عبد اللہ بن اریقط کہا جاتا تھا اس کا تعلق بنی دیل سے تھا۔" ختم شد
لقاء الباب المفتوح: (2/56)
ہم اللہ تعالی سے آپ کی صحت کے لیے دعا گو ہیں۔
واللہ اعلم