"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
جب آپ نے يہ قسم اٹھائى كہ اگر بيوى چاہے تو ميں اسے طلاق دے دونگا، اور بيوى نے بتايا كہ وہ طلاق چاہتى ہے، تو اس سے طلاق واقع نہيں ہوگى، اور نہ ہى آپ پر لازم ہوگا كہ آپ بيوى كو طلاق ديں، كيونكہ شريعت مطہرہ ميں طلاق دينا مكروہ ہے.
ليكن آپ پر قسم كا كفارہ لازم آتا ہے، اور قسم كا كفارہ يہ ہے كہ: ايك غلام آزاد كيا جائے، يا پھر دس مسكينوں كو كھانا كھلايا جائے، يا انہيں لباس مہيا كيا جائے، اور جو اس كى استطاعت نہ ركھے تو وہ تين روزے ركھےگا.
يہ كلام شرط پر معلق طلاق ميں شامل نہيں ہوتى، بلكہ يہ تو طلاق كے وعدہ ميں شامل ہوتى ہے كہ اگر بيوى چاہے تو طلاق دينے كا وعدہ كيا گيا ہے، اگر كوئى كہے كہ: اگر تم چاہو تو تمہيں طلاق، اور اگر تم چاہو تو ميں تمہيں طلاق دے دونگا تو اس ميں فرق يہ ہے كہ پہلى كلام ميں طلاق كا وعدہ نہيں ليكن دوسرى كلام ميں طلاق كا وعدہ كيا گيا.
طلاق كے الفاظ كو استعمال كرنے سے اجتناب كرنا چاہيے اور اس ميں سستى و كاہلى نہيں كرنى چاہيے؛ كيونكہ ہو سكتا ہے معاملہ طلاق واقع ہونے تك پہنچ جائے اور خاندان كا شيرازہ بكھر جائے.
واللہ اعلم .