"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
ایسے شخص کو زکاۃ دی جا سکتی ہے جس کی آمدن ضروریات سے کم ہو، چاہے
اس کے پاس کرائے پر دیا ہوا مکان ہی کیوں نہ ہو؛ کیونکہ اس کی حالت مسکین والی ہے،
جس کے بارے میں اللہ تعالی نے صراحت سے فرمایا ہے کہ:
(إِنَّمَا
الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ ....)
ترجمہ: بیشک صدقات فقراء اور مساکین۔۔۔ کیلئے ہیں۔[التوبة:60]
نووی رحمہ اللہ "مسکین " کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں:
"جس کے پاس کچھ رقم ہو یا ذریعہ معاش تو ہو لیکن اس کی ضروریات کیلئے ناکافی ہو"
انتہی
"المنهاج مع شرح مغنی المحتاج" (4/176)
بلکہ اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام کے خضر کے ساتھ پیش آنے والے
واقعہ میں ہمیں یہ بتلایا ہے کہ مساکین ایک کشتی کے مالک تھے، [پھر بھی انہیں
مسکین کہا ہے]، چنانچہ فرمایا:
(أَمَّا
السَّفِينَةُ فَكَانَتْ لِمَسَاكِينَ يَعْمَلُونَ فِي الْبَحْرِ)
ترجمہ: کشتی سمندر میں کام کرنے والے مساکین کی تھی۔[ الكهف:79] لہذا کشتی کی ملکیت
رکھنے کے باوجود انہیں مسکین ہی کہا گیا ، مساکین کے زمرے سے خارج نہیں کیا گیا۔
اس بنا پر جس شخص کے پاس مکان کرایہ پر دینے کیلئے ہو، اور اس سے حاصل شدہ آمدن ضروریات پوری نہ کرے تو اسے زکاۃ دی جا سکتی ہے، کیونکہ یہ شخص زکاۃ کے مصارف میں شامل ہے۔
امام مالک رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جس کے پاس ذاتی مکان اور خادم ہو، اور اس کے علاوہ کچھ نہ ہو تو اسے زکاۃ دی جا
سکتی ہے" انتہی
"المدونة" (3/221)
نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر کسی شخص کی اراضی ہو اور اس سے حاصل شدہ آمدن ضروریات پوری نہ کرے تو یہ شخص
فقیر یا مسکین کے زمرے میں آتا ہے، اس لیے اس کی ضروریات پوری کرنے کیلئے مطلوبہ
مقدار میں زکاۃ دی جا سکتی ہے، اسے زمین فروخت کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا"
انتہی
"شرح المهذب" (6/174)
اور اسی طرح "كشاف القناع" (2/273) میں ہے کہ:
"امام احمد ، محمد بن حکم کی روایت میں کہتے ہیں: اگر کسی کا کوئی ذریعہ معاش یا
اراضی ہو جس سے 10000 یا اس سے بھی زیادہ آمدن حاصل کرے لیکن ضروریات پوری نہ ہوں ،
تو ایسا شخص زکاۃ وصول کر سکتا ہے۔۔۔" انتہی
خلاصہ یہ ہوا کہ:
جس شخص کی کرائے پر دی ہوئی پراپرٹی ہو، لیکن اس سے حاصل شدہ آمدن کافی نہ ہو تو
اسے زکاۃ میں سے اتنی مقدار دی جائے گی جو اسے اور اس کے اہل و عیال یعنی اولاد،
بیوی، والد، اور ماں کیلئے کافی ہو۔
واللہ اعلم.